نیکلس کا معاملہ مجھے رُسوا کرنے کے لیے
کھڑا کیا جا رہا ہے...گیلانی
سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''نیکلس کا معاملہ مجھے رسواکرنے کے لیے کھڑا کیا جا رہا ہے‘‘ اور میں نے گزشتہ برسوں میں جو عزت کمائی ہے وہ کسی کو ہضم نہیں ہو رہی؛ حالانکہ سب کا معدہ میری طرح لکڑہضم‘ پتھر ہضم ہونا چاہئے‘ کیونکہ میں نے جو بھی کھایا مکمل طور پر ہضم کر کے دکھادیا ہے‘ سوائے ان 17ارب روپوں کے جن کی انکوائری ابھی چل رہی ہے۔ لیکن انشاء اللہ وہ بھی اس زبردست ہاضمے کے آگے نہیں ٹھہر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے کہہ دیا تھا کہ نیکلس میرے پاس ہے تو بات ختم ہو جانی چاہیے تھی۔ کیونکہ سب کو میرا اچھی طرح سے پتا ہے کہ اس بلیک ہول میں جو چیز ایک بار داخل ہو گئی وہ کبھی باہر نہیں نکلی اور یہ ہار تو اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نیب کو یہ معاملہ صرف میری کردار کشی کے لیے بھیجا جا رہا ہے‘‘ حالانکہ میں نے اپنے دور میں صرف کردار ہی تو استوار کیا تھا جس کی دھاک ایک دنیا پر بیٹھ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اس سے بہتر تھا کہ وزیر داخلہ مجھ سے بات کر لیتے‘‘ اور میں انہیں یاد دلاتا کہ میرے سابقہ کمالات کے پیش نظر اس ہار کی حیثیت ہی کیا ہے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں اخبار نویسوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
کوئی گرمی سے گُھٹ کر مر جائے
تو ذمہ دار حکومت نہیں... عابد شیر علی
وفاقی وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ ''کوئی گرمی سے گُھٹ کر مر جائے تو ذمہ دار حکومت نہیں‘‘ کیونکہ سردی اور گرمی اللہ میاں بھیجتے ہیں‘ حکومت نہیں۔ جبکہ بجلی کی ترسیل بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کیونکہ اس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ تک نہیں ہل سکتا جیسا کہ اس قدر تباہی و بربادی کے باوجود حکومت اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں ہل رہی‘ اسے ہلانے کے لیے کسی بڑے بھونچال کی ضرورت ہے۔ جب تک عوام نے بھنگ پی رکھی ہے اور ٹھیک طرح سے سڑکوں پر بھی نہیں نکل سکتے‘ اس وقت تک حکومت کو ستے خیراں ہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا ایجنڈا صرف حکومت پر تنقید کرنا ہے‘‘ حالانکہ مفاہمتی فارمولے کے تحت یہ سراسر ناجائز ہے اور اس کے اچھے نتائج نہیں نکلیں گے کیونکہ اپوزیشن سے متعلقہ بہت سے معاملات حکومت کے زیر غور ہیں اور حکومت انہیں مصلحتاً التواء میں رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہر بات حکومت کے کھاتے میں ڈالنا اچھی بات نہیں‘‘ جبکہ حکومت کے کھاتے بالکل الگ ہیں اور خدا کی قدرت ہے کہ پوری کوشش کے باوجود بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بجلی کا رونا
یہ وہ رونا ہے جو کراچی سے لے کر خیبر تک رویا جا رہا ہے۔بندے تھوک کے حساب سے مر رہے ہیں۔ احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں جبکہ بجلی گھروں کو آگ لگانے کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ حکومت کا موقف یہ ہے کہ بجلی تو موجود ہے لیکن بجلی کے تار اس قدر بوسیدہ ہو چکے ہیں کہ وہ زیادہ لوڈ برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو حکومت نے اس سلسلے میں اب تک کیا کیا ہے اور کھربوں روپے میٹرو بسوں ‘ گرین بسوں اور اورنج لائن ٹرین جیسے منصوبوں میں جھونک رہی ہے اور خلقت‘ بجلی اور پانی دونوں کے لیے بلک رہی ہے۔ اس کے علاوہ بجلی چوری کا بھی کوئی سدباب نہیں ہو رہا کیونکہ زیادہ تر بجلی چور بڑے کارخانہ دار ہیں جو حکومت کے ویسے ہی پیٹی بھائی ہیں جن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ حکومت ڈرے اس وقت سے جب ایک چھوٹا سا طبقہ ہی اٹھ کھڑا ہو گا اور اس کا تیا پانچہ کر کے رکھ دے گا کیونکہ تاریخ میں کئی بار ایسا ہو چکا ہے‘ اور ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے‘یعنی ع
سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے!
صحیح فنڈز‘ غلط استعمال
یہ اطلاع اخبار میں چھپ چکی ہے کہ یو این ڈی پی کے اربوں کے فنڈز‘ جن کا مقصد خواندگی کو بہتر بنانا‘ غربت‘ پسماندگی کا خاتمہ‘ خواتین کی بہبود‘ کمسن بچوں کی اموات کی روک تھام اور ملیریا کے علاج کا انتظام کرنا تھا‘ سیاسی طور پر استعمال کئے جا رہے ہیں اور بلدیاتی الیکشن جیتنے کے لیے گلیوں‘ سڑکوں پر لگائے جا رہے ہیں‘ سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر اس لیے کہ اس میں معزز ارکانِ اسمبلی کی بھی چاندی ہو جاتی ہے۔ حکومتی ارکان قومی اسمبلی کو 3,3کروڑ کی سکیمیں مکمل کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جبکہ اکیلے لاہور کو مختصر عرصہ میں 62کروڑ روپے جاری ہوئے ہیں جس سے حکومت کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو پہلے ہی کچھ ڈھکی چھپی نہیں ہیں اور جس کے مظاہر ملک میں ہر طرف دکھائی بھی دے رہے ہیں کیونکہ حکومت کا اولین مقصد یعنی پہلی ترجیح‘ ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنا اور اس میں رہنا ہے‘ خواہ عوام کو الٹی چھری سے ذبح ہی کیوں نہ کرنا پڑے جبکہ کئی جگہوں کے لیے مختص فنڈز دوسری جگہوں پر استعمال کئے جانے کی متعدد مثالیں پہلے ہی موجود ہیں‘ وہ اس لیے کہ حکومت کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ اپوزیشن ہے مگر اس کے ساتھ اس نے مک مکا کر رکھا ہے‘ لیکن اگلے عام انتخابات میں دونوں کو اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ صرف کسی کے اُٹھ کھڑے ہونے کی دیر ہے اور جو لوگ عمران خاں میں کیڑے نکال رہے ہیں‘ وہ بھی سن لیں کہ جب نوبت بجے گی تو عمران خاں کے علاوہ کوئی اور بھی سامنے آ کر سب کو حیران اور حکومت کو پریشان کر سکتا ہے کیونکہ جب لاوا پک جائے تو اسے باہر نکالنے کے لیے چھوٹاموٹا راستہ ہی کافی ہوتا ہے جس کی کسی کو توقع ہی نہیں ہوتی۔اس ملک اور اس کے عوام پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں کبھی ان کا انصاف بھی ہونا ہے کیونکہ انصاف کرنے والے زمین پر بھی موجود ہوتے ہیں اور اُوپر بھی!
آج کا مطلع
محبت ہے مگر اس کو خبر ہونے سے ڈرتا ہوں
کہ اس خوشبوئے دل کے نشتر ہونے سے ڈرتا ہوں