حسین مجروح ہمارے سینئر اور منفرد شعراء میں شامل ہیں۔ کسی تعارف کے محتاج نہیں ‘ اور نہ ہی میں ان کی شاعری کے بخیے ادھیڑنے کی پوزیشن میں ہوں کہ یہ نقادوں کا کام ہے جو الحمدللہ کہ میں نہیں ہوں۔ ان کی نظم اور غزل کے کچھ نمونے‘ جو انہوں نے ہماری فرمائش پر مرحمت کیے ہیں:
ہم کہانی ہوئے
ہم کہانی ہوئے اور ... ان موسموں کی کہانی جنہیں ... زندگی نے... نصابوں سے خارج کیا... وہ روا دار موسم کہ جن کے بدن... کبِرکی دھوپ میں آنبوسی ہوئے... اب کہاں جائیں ہم... داستانوں کی پر پیچ لمبی گلی میں... کوئی راہداری ہماری نہیں... کسی زرد موسم کی چوکھٹ پہ ہم نے... کوئی سبز خواہش اتاری نہیں... ہم کہاں جائیں بوڑھی جوانی لیے... اور اٹکی ہوئی سانس والی... زباں کی روانی لیے... جو سوالوں کی دستک کو سنتی نہیں... اور پرچھائیوں سے گزاری گئی... تھپکیوں کا وظیفہ بدلتی نہیں... ہم جو موجو د ہیں... آنجہانی ہوئے... وقت کی ریت میں دفن ہوتی ہوئی... ایک ندّی کی آنکھوں کا پانی ہوئے... ہم کہانی ہوئے۔
سامنے کا بھید
ہُوا بیدار میں... جیسے زمیں کا بھید کھلنے پر... کنواں بیدار ہوتا ہے... ہوا یہ منکشف مجھ پر... کہ سونے اور کھونے میں... کسی کو مرحبا کہنے میں اور تکیے بھگونے میں... کسی پگھلے ہوئے لاوے کوٹھنڈی راکھ ہونے میں... فقط اک پل کا وقفہ ہے... جو لمبی تان کے سوتا ہے... موسم کی حرارت میں... کبھی گونگے فرشتوں کی... سراسیمہ بغاوت میں... مگر جب رونما ہونے پہ آئے... تو وہی اک پل کا وقفہ بھی ... بہت خونبار ہوتا ہے... زمیں کا بھید کھلنے پر کنواں بیدار ہوتا ہے۔
چاہِ بے اماں
قضا... جب چاہِ کنعاں میں... کسی یوسف کو بے تقصیر لے جائے... تو پانی زرد ہو جائے... سمے کی سیج پر سوئی ہوئی... وحشت کا ماتھا... سرد ہو جائے... مگر اس شہر میں... جس کی ہتھیلی پر ہمارا نام لکھا ہے... ہمارے بخت کی بیوہ لکیریں... جس کے خدوخال کو ابٹن لگاتی ہیں... قضا... صبح وسسا... کتنی زلیخائوں کی باہیں برف کرتی ہے... نہ جانے کتنی دہلیزوں پہ رکھی بے کلی کو... دیدۂ یعقوب سے تشبیہ دیتی ہے... اور اس بے مہر بستی کا نہ پانی زرد ہوتا ہے‘ نہ ماتھا سرد ہوتا ہے... فقط بے گھر محبت کے... لہو میں درد ہوتا ہے۔
نیند کی ٹہنی پر
سارے خواب کہاں پھلتے ہیں... اکثر خواب تو... کچی نیند کی ٹہنی پر ہی مر جاتے ہیں... باقی ماندہ... تعبیروں کے پھانسی گھاٹ... اتر جاتے ہیں... تھوڑے سے جو بچ رہتے ہیں... دنیا کی ناشکری آنکھ میں... تازہ جگنو بھر جاتے ہیں... لیکن دنیا... پیتل پر سونے کا رنگ چڑھاتی دنیا... خوابوں سے گھبرا جاتی ہے... جگنو بیچ کے کھا جاتی ہے۔
آئینوں کی سیاست
ڈرو اس وقت سے... اس وقت کی سفاک نوبت سے ڈرو... جب شہر میں ... تازہ ہوا کی تھیلیاں... خوردہ فروشوں کے تصادم میں... پچک جائیں... ڈرو اس وقت سے... اس وقت کی دیدہ دلیری سے ڈرو... جب دھوپ کی تقسیم... راشن کارڈ پر ہو... ڈرو اس وقت سے... اس وقت کی عبرت نگاہی سے ڈرو... جب خواب اور پنچھی... تمہاری بستیوں سے کوچ کر جائیں... مگر تم کیا ڈرو گے... تم تو اپنے آئینوں سے بھی نہیں ڈرتے... تمہارے آئینے ... جو عکس کو ... چہرے کے تیور بھانپ کر... تصویر کرتے ہیں... کبھی... دانائی کے دھوکے میں... عریانی کی لذت... بھاپ سے تحریر کرتے ہیں۔
تماشا
تماشا وہ نہیں... جو آنکھ کی پتلی میں ہوتا ہے... تماشا مشوروں کی رائگانی میں نہیں ہوتا... تماشا... بے سروساماں لہو کے... مشتعل ذروں میں ہوتا ہے... کبھی چیونٹی بپھر جائے... تو غم سے نابلد... کہسار کے دروں میں ہوتا ہے... تماشا جسم کا چھلکا اترنے پر نہیں ہوتا... تماشا تو... بھنور کی نامرادی سے... لب ساحل میں ہوتا ہے... کسی کے بچ نکلنے پر... کفِ قاتل میں ہوتا ہے... اور اکثر... کچھ نہیں ہوتا... تماشا پھر بھی ہوتا ہے۔
کشتی ہے نم کی اور کنارہ ہے آنکھ کا
وحشت میں جو نمک ہے وہ سارا ہے آنکھ کا
ملتی ہے دیر سے اسے تنخواہ عاشقی
اوپر کی آمدن پہ گزارا ہے آنکھ کا
رکنی نہیں نگاہ کسی ماہتاب پر
گردش میں کچھ دنوں سے ستارہ ہے آنکھ کا
اگلی مسافتوں کے تو قصے ہی اور ہیں
یہ دلبری تو پہلا اشارہ ہے آنکھ کا
دل جو گردابِ خدوخال میں جا پہنچا ہے
اک بگولہ ہے کہ بھونچال میں جا پہنچا ہے
زر کے بحران میں لوہے کی سلاخیں لے کر
بے ہنر شخص بھی ٹکسال میں جا پہنچا ہے
بیچے تمام عمر جو خواہش کے نرخ پر
لینے گئے وہ خواب تو قیمت بدل گئی
جو منہ کو آ رہی تھی وہ لپٹی ہے پائوں سے
بارش کے بعد خاک کی سیرت بدل گئی
مجروح عاشقی بھی ہے تاریخ کی طرح
راوی بدل گیا تو روایت بدل گئی
ہوائے شوق سرِشام جب بھی چلتی ہے
تو دل کے طاق میں اک لالٹین جلتی ہے
نکل کے دل سے لہو پر یہ انکشاف ہوا
کہ گھر بدلنے سے آب و ہوا بدلتی ہے
منظر بھی‘ پس منظر بھی
خواب ہے خواب کے اندر بھی
لاد لیا ہے بوجھ بہت
کھول دیا ہے لنگر بھی
گمراہی تو ہوتی ہے
اکثر راہ کے اندر بھی
کبھی سفر سے کبھی راستے سے ڈرتے ہوئے
میں خاک ہو گیا اس عمر کو بسرتے ہوئے
تری گلی میں گیا اس طرح ڈرا ہوا دل
کنوئیں میں جیسے کبوتر کوئی اترتے ہوئے
ہم اپنے قول پہ قائم ہوئے سو ہار گئے
وہ سرخرو ہوا ہر بات سے مکرتے ہوئے
آج کا مقطع
اِک آغاز سفر ہے اے ظفرؔ یہ پختہ کاری بھی
ابھی تو میں نے اپنی پختگی کو خام کرنا ہے