"ZIC" (space) message & send to 7575

شبلی کی حیات ’’غیر معاشقہ‘‘

جریدہ ''صحیفہ‘‘ شبلی نمبر پر اظہار خیال کرتے ہوئے اگلے روز اپنے کالم میں میں نے عرض کیا تھا کہ یہ شمارہ اس لحاظ سے تشنہ رہ گیا ہے کہ اس میں شبلی کی حیات معاشقہ کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ دراصل یہ سہو نظر تھا اور فاضل مدیر نے مجھے یاد دلایا کہ اس میں ''شبلی چوں خلوت می رود‘‘ کے عنوان سے اسی موضوع پر مضمون موجود ہے جسے پڑھ کر بھی میں اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا ہوں کیونکہ اس میں حیات معاشقہ کی بجائے شبلی کی حیات کو غیر معاشقہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں اس سلسلے میں لمبی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا اور صرف اتنا عرض کر دینا کافی سمجھتا ہوں کہ اس مبینہ معاشقے کے خلاف یا رد میں جو دلائل دیئے گئے ہیں انہی کی روشنی میں اس سارے معاملے کا اثبات بھی ثابت ہوتا ہے یعنی
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
یہ دلیل بجائے خود کوئی وزن نہیں رکھتی کہ اگر شبلی عطیہ سے عشق میں مبتلا تھے تو موصوفہ کی بہنوں نازلی بیگم وغیرہ کے ساتھ ان کے اتنے قریبی روابطہ کیوں تھے۔ حق تو یہ ہے کہ بقول شخصے محبوب کا کتا بھی بہت پیارا ہوتا ہے، وہ تو محبوب کی بہنیں تھیں کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
اب تو ہر شخص کی خاطر ہوئی مطلوب ہمیں
ہر کسی کے بھی نہیں تھے جو تمہارے نہیں تھے
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ محبت میں مبتلا شخص کی تو سائیکی ہی اور سے اور ہو جاتی ہے، اور وہ ایک نارمل آدمی سے قطعی مختلف ہو کر رہ جاتا ہے!
پھر یہ کہنا کہ عطیہ بالآخر شبلی سے دور اور متنفر ہوتی چلی گئی تھیں۔ اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ محبت نہیں تھی کیونکہ محبت تو یک طرفہ بھی ہو سکتی ہے اور جس قدر التفات کا مظاہرہ عطیہ کی طرف سے ارزانی ہوا تھا، شبلی کے لیے وہی کافی ہونا چاہیے تھا۔ یہ شعر دیکھیے ؎
موسم ہے الگ، آب و ہوا اور ہی کچھ ہے
یکطرفہ محبت کا مزہ اور ہی کچھ ہے
اقبال کے ساتھ عطیہ کی علیک سلیک شروع ہوئی تو شبلی سے دوری یا فاصلے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی۔ اگرچہ مضمون میں یہ بھی تسلیم نہیں کیا گیا کہ اقبال عطیہ کی محبت میں مبتلا ہو گئے تھے لیکن دونوں کی عمر میں اتنا تفاوت تھا کہ عطیہ کا خطوط میں اقبال کو بار بار ڈانٹنے اور سرزنش کرنے اور جواب میں اقبال کی طرف سے ہر بار معذرتیں کرنے کو آپ کس کھاتے میں ڈالیں گے۔ یہاں ایک اور امکان بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں کہ عطیہ کو معلوم تھا کہ اقبال کی اپنی اہلیہ کے ساتھ بنتی ہی نہ تھی بلکہ وہ ان سے دور ہی رہنا چاہتے تھے اور ہو سکتا ہے کہ عطیہ اقبال سے شادی کرنے کی خواہشمند رہی ہوں جس کا موقع بہرحال آنا تھا نہ آیا۔
پھر عطیہ کی صاحب سلامت اور خط و کتابت سرعبدالقادر کے ساتھ بھی تھی جو بہرحال دستیاب نہیں ہے ورنہ اس ضمن میں کئی اور گوشے بھی سامنے آ سکتے تھے اور نہ ہی اقبال کے ساتھ خط وکتابت کا پورا ریکارڈ دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ عطیہ کے نام ابو الکلام آزاد کا ایک خط اور اس میں درج شعر بجائے خود یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ کوئی رسمی رابطہ نہ تھا، اگرچہ اسے عشق کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ عطیہ ایک خوش شکل اور نوجوان عورت ہونے کے علاوہ پڑھی لکھی اور ادبی ذوق کی حامل خاتون تھی اور قابل ذکر حضرات کا اس کی طرف متوجہ ہونا کوئی انہونی بات نہیں لگتی، وہ اقبال ہوں، سر عبدالقادر ہوں، شبلی ہوں یا ابو الکلام آزاد، صنف مخالف کی طرف راغب ہونا اس لیے بھی ممکن بلکہ لازمی ہے کہ اللہ میاں نے دونوں کی کیمسٹری میں اس کا وافر انتظام کر رکھا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ سارا تردد ایک قصہ رنگین کو بے رنگ بنانے کے لیے روا رکھا گیا ہے۔ اس لیے کوئی بھی اس تھیوری پر یقین کرنے کے لیے تیار نہ ہو گا کیونکہ ماضی میں اس سلسلے کے جو باغ و بہار دکھلائے جا چکے ہیں، وہ ایسی کمزور دلیلوں سے لوگوں کے ذہنوں سے کھرچے نہیں جا سکتے کہ دماغ یا عقل کو قائل کرنا اور بات ہے اور دل کو اور بات جبکہ یہ تردید نما تحریر ان کتابوں کی اشاعت کے سالہاسال بعد آئی ہے جب یہ بات ذہنوں میں راسخ ہو چکی تھی پھر یہ کہ اس قصۂ رنگین کا موجود ہونا لوگوں کے لیے باعث کشش ہو سکتا ہے، اس کی تردید یا تنسیخ سے کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟
یہ بات کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ شبلی اس ضمن میں شاد کام بھی ہو سکے ہوں کیونکہ جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے محبت جیسی پیچیدہ چیز کے لیے یہ باتیں ایک حد تک ہی اولین ترجیح ہو سکتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب ڈاکٹر وحید قریشی نے اپنی کتاب ''شبلی کی حیات معاشقہ‘‘ شائع کی تو ایک دینی سیاسی جماعت نے مارکیٹ میں موجود اس کی تمام جلدیں خرید کر تلف کر دی تھیں کیونکہ وہ شبلی کے ساتھ مودت کا قریبی رشتہ رکھتی تھی۔ ان حالات میں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر مندرجہ واقعات و معاملات فرضی اور غلط تھے تو عطیہ کے لواحقین یا وارثان نے اس سلسلے میں قانونی چارہ جوئی سے احتراز کیوں کیا۔ سو ابن فرید صاحب نے بیشک ایک فریضہ سرانجام دے دیا ہو، لیکن یہ کچھ زیادہ قائل کرنے والا نہیں تاہم یہ بھی ایک کالم ہے، مضمون یا جواب مضمون نہیں ہے!!۔
آج کا مطلع
فتور اگرچہ تمنا کا سر میں اتنا ہے
غزل کہے کوئی کیا شور گھر میں اتنا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں