"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور ٹوٹا

ہم نے قرضے ہڑپ کے 
نہ معاف کرائے: شہباز شریف 
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''ہم نے قرضے ہڑپ کئے نہ معاف کرائے‘‘ کیونکہ اس کی ہمیں کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی ہم نے حکومت ملتے ہی اللہ کا نام لے کر اقتدار اور کاروبار کو اکٹھا کر دیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ جہاں کہیں ڈیفالٹر تھے وہاں عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا جو جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''نیب نے قوم سے مذاق کیا‘‘ کیونکہ سپریم کورٹ کو دی گئی فہرست میں ہمارا نام ڈالنا کیا ضروری تھا اور جہاں دیگر بہت سارے سکینڈل اور نام گول کر دیئے تھے‘ یہ بھی ہو سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''منصفانہ اور بے رحمانہ احتساب نہ ہوا تو ملک کی گاڑی اسی طرح ایک پہیے پر چلتی رہے گی‘‘ جبکہ ملک کو واحد ہمارا پہیہ ہی دستیاب ہے اور اگر یہ ون ویلنگ جاری رہی تو اس کا انجام سب کو معلوم ہونا چاہیے ع پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ 
نیب پگڑی اچھال ادارہ ہے‘ اس کا بھی 
احتساب ہونا چاہیے: پرویز رشید 
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''نیب پگڑی اچھال ادارہ ہے‘ اس کا بھی احتساب ہونا چاہیے‘‘ کیونکہ اس نے ہماری پگڑی بھی اچھالنا شروع کردی ہے اور اس طرح اپنے آپ کو غیرجانبدار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کا پول کھل گیا ہے اور چیئرمین وغیرہ کو دیگر چیئرمینوں کا حشر یاد رکھنا اور عبرت حاصل کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''اتنے سالوں سے دائر مقدمات ثابت نہ ہونے پر پارلیمنٹ اس کے لیے سزا تجویز کرے‘‘ جس طرح یہ عمران خان کے دھرنے کے موقع پر حکومت کے حق میں یکسو ہو گئی تھی اور اب انہی معززین نے حکومت کے ساتھ چھیڑخانی شروع کردی ہے حالانکہ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اگر ہم گئے تو ساتھ وہ بھی لگے جائیں گے‘ وہ وقت یوں سمجھیے کہ آنے ہی والا ہے کیونکہ کراچی میں یہ کام شروع ہو چکا ہے اور اس نے جہاں پہنچ کر رُکنا ہے وہ سب کو معلوم ہے‘ اس لیے اپوزیشن اگر ہمارا نہیں تو اپنا ہی کچھ خیال کرے جبکہ ہم اس کا پورا پورا خیال رکھ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
سپریم کورٹ میں پیش کردہ نیب کی 
فہرست محض الزام تراشی ہے... خورشید شاہ 
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''سپریم کورٹ میں پیش کردہ نیب کی فہرست محض الزام تراشی ہے‘‘ جس کے ذریعے ہمارے جیسے نیک نام سیاستدانوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جبکہ ان کے پاس قوم کے لیے صرف نیک خواہشات اور دعائیں ہیں جو انہوں نے زیادہ تر بیرونی بینکوں میں جمع کرا رکھی ہیں تاکہ وہاں محفوظ رہیں اور بوقت ضرورت قوم کے کام آئیں جبکہ خود ان کی حالت یہ ہے کہ یہ سب کے سب بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہی کے محتاج بلکہ محتاج بھی اس قدر کہ اب وہ خود زکوٰۃ کے مستحق ہو گئے ہیں۔ ان کے اکثر خیر خواہ، صدقات و خیرات سے بھی ان کی مدد کرتے رہتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے‘ آمین ثم آمین۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک میں اداروں کے ٹکرائو سے جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘‘ حالانکہ جتنا نقصان خود جمہوریت ملک کو پہنچا چکی ہے اور اب بھی پہنچا رہی ہے اس کے لیے وہی کافی ہے۔ اس سلسلے میں مزید کسی اور کو اس تکلف میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سپریم کورٹ میں نیب کی مکمل رپورٹ پیش ہونی چاہیے‘‘ تاکہ کچھ اور کرم فرمائوں کا بھی انکشاف ہو سکے کہ ہمارے ہاں کس قدر گوہرِ آبدار موجود ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ 
دھڑا دھڑ 
یہ جو پاکستان تحریک انصاف میں مختلف جماعتوں سے سیاسی لیڈر دھڑا دھڑ شامل ہو رہے ہیں اس پر ہمارے بعض دوست بجا طور پر پریشان ہیں کہ زیادہ تر ان میں جاگیردار اور بدنام لوگ ہیں اور یہ تحریک میں آ کر بھی وہی کچھ کریں گے جو پہلے یعنی اپنی سابق پارٹیوں میں کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلی عرض تو یہ ہے کہ عمران خان 
فرشتے کہاں سے لائے کیونکہ سبھی سیاسی افراد ویسے ہی ہیں جیسے کہ ہمارا معاشرہ اور ہم خود ہیں جبکہ لوگ باہر سے درآمد بھی نہیں کرائے جا سکتے۔ دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے جو لوگ زراندوزی میں ملوث رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی قیادت خود ایسی ہی تھی اور علی الاعلان سارا کچھ کر رہی تھی تو یہ کیوں نہ کرتے کیونکہ مچھلی ہمیشہ سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے۔ تحریک میں فرق یہ ہوگا کہ چونکہ اس کی قیادت خود کرپٹ نہیں ہے اس لیے زیریں سطح پر بھی کرپشن اور لوٹ مار کی کوئی گنجائش نہ ہوگی۔ نیز اصل بات یہ بھی ہے کہ لوگ باریاں لینے والوں سے مکمل طور پر بیزار ہو چکے ہیں جنہوں نے ملکی خزانے اور وسائل کو تہس نہس کر کے رکھ دیا؛ چنانچہ اگر ان کے علاوہ ملک میں کوئی تیسرا آپشن ہے تو وہ عمران خان ہی ہے جسے لوگ ایک موقع ضرور دینا چاہتے ہیں کیونکہ دوسروں کی طرح اسے ابھی آزمایا نہیں گیا ہے۔ اور پھر جمہوریت کی چھلنی سے چھن چھن کر اور رفتہ رفتہ ہی صحیح لوگوں کو آگے آنے کا موقع ملے گا کہ کوئی تبدیلی راتوں رات نہیں آ سکتی‘ اس کے لیے انتظار اور صبر سے کام لینا ہوگا اور خوش امیدی سے بھی! 
آج کا مقطع 
شور ہے اس گھر کے آنگن میں‘ ظفرؔ‘ کچھ روز اور 
گنبدِ دل کو کسی دن بے صدا کر جائوں گا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں