"ZIC" (space) message & send to 7575

زباں بگڑی تو بگڑی تھی‘ خبر لیجے دہن بگڑا

''دنیا زاد‘‘ ہی کے تازہ شمارے کے آخر میں زبان کے حوالے سے چار مختصر مضامین بعنوان ''زبان کی واٹ‘‘، ''دماغ کا دہی‘‘، ''ریڈیو کا ڈھکن‘‘ اور ''کراچی کا کدو‘‘ مفید ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی دلچسپ بھی ہیں‘ جن میں کراچی اور دیگر مقامات پر زبان میں نئی اصطلاحات‘ محاوروں اور الفاظ کے اضافے کا ذکر کیا گیا ہے‘ نیز پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اکثر الفاظ کو غلط تلفظ کے ساتھ ادا کرنے کا رونا بجا طور پر رویا گیا ہے جس کی طرف توجہ دلانا بہت ضروری تھا۔ مضمون بعنوان ''ریڈیو کا ڈھکن‘‘ میں یہ اندراج بھی پایا گیا کہ آفتاب اقبال اپنے ٹی وی پروگرام میں زبان کی اصلاح کے لیے چند قیمتی منٹ صرف کرتے ہیں۔ یہ ایک گراں قدر کوشش ہے لیکن ان پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ چار چھ منٹ کی اصلاح سے پہلے اور بعد میں پینتیس چالیس منٹ بھانڈوں کی گفتگو سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ اس پر اتنی وضاحت ہی کافی ہوگی کہ یہ بنیادی طور پر کامیڈی پروگرام ہے‘ اصلاحِ زبان کا نہیں۔ 
زبان اور تلفظ کی اصلاح کے لیے طرح طرح کی فرہنگیں موجود ہیں لیکن فرہنگ کو آج کوئی اہمیت دیتا ہے اور نہ اس سے استفادے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور میڈیا پر کئی طرح کے الفاظ غلط معنی اور تلفظ کے ساتھ پڑھنے سننے کو ملتے ہیں۔ صرف 
ایک مثال کافی ہوگی کہ اینکروں‘ صحافیوں اور وزیروں‘ مشیروں سمیت وقت کو وقَت ہی پڑھا اور بولا جاتا ہے‘ حتیٰ کہ ہمارے دوست نجم سیٹھی اپنے نام کے تلفظ کے ساتھ بھی گڑبڑ کر جاتے ہیں اور نجم کی جیم کو بالفتح یعنی زبر کے ساتھ ادا کرتے ہیں جبکہ انگریزی میں بھی وہ Najm کی بجائے Najam ہی لکھتے ہیں۔ بہرحال اپنے نام کو غلط ادا کرنے والے وہ پہلے آدمی نہیں ہیں بلکہ ہمارے وقت کے ممتاز شاعر جعفرؔ شیرازی، جعفر کو شاعر اور ساحر کے تلفظ پر ادا کیا کرتے تھے جو میرے ٹوکنے پر ہی باز آئے۔ 
دوسری افسوسناک بات یہ ہے کہ غلطی کی نشاندہی پر شُکر گزار ہونے کی بجائے ناراضی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے فہمیدہ ریاض نے ایک ملاقات کے دوران کہا کہ سنا ہے آپ نے میرے خلاف مضمون لکھا ہے۔ ان کا اشارہ اس تبصرے کی جانب تھا جس میں‘ میں نے ان کی کتاب ''یہ خانۂ آب و گل‘‘ پر راغب شکیب کے رسالے میں تبصرہ کیا تھا جو مولانا رومی کی غزلوں کے ترجمے پر مشتمل تھی۔ میں نے اس میں حضرت مولانا کی امرد پرستی کے حوالے سے لکھا تھا کہ کس طرح 
انہیں اپنے محبوب نوجوان سے ملنے کے لیے ایک طویل اور کٹھنائیوں بھرا سفر طے کرنا پڑا۔ البتہ میں نے ترجمے کی کچھ غلطیوں کی نشاندہی بھی کی تھی جسے انہوں نے مخالفت سمجھا۔ میں نے احمد ندیم قاسمی کی ایک تحریر میں غلطیاں نکالیں تو احمد فراز نے کہا کہ تمہیں ندیم صاحب کی غلطیاں نہیں نکالنی چاہیے تھیں۔ میں نے کہا کہ اگر معروف لوگوں کی زبان و بیان کی اغلاط کی نشاندہی نہ کی جائے اور ان کی اصلاح نہ ہو تو یہ غلطیاں نسل در نسل آگے سفر کرتی ہیں۔ اسی طرح میں نے ڈاکٹر انیس ناگی کے ایک مضمون (انیس ناگی کم از کم اردو تو سیکھ لیں: لاتنقید) میں بے شمار غلطیاں نکالیں تو انہوں نے اپنے رسالے میں میرے خلاف لکھنا شروع کردیا۔ میں نے شامتِ اعمال سے شمس الرحمن فاروقی کے ایک مضمون میں‘ جو اُن کے رسالہ ''شب خون‘‘ میں چھپا تھا‘ غلطیاں نکالیں تو انہوں نے میرا وہ خط تو چھاپ دیا لیکن اس کی وضاحت میں جو کچھ چھاپا اس میں پہلے سے بھی زیادہ غلطیاں تھیں جس پر میں نے انہیں ایک اور خط لکھا جسے وہ گول کر گئے‘ اور اس طرح میری ان کے ساتھ کُٹی ہو گئی اور انہوں نے اپنے غالبؔ والے بیان سے رجوع کرلیا۔ میں نے کشور ناہید کی کتاب ''دہشت اور بارود میں لپٹی شاعری‘‘ پر لکھے گئے انتظار حسین کے مضمون مطبوعہ ''دنیا زاد‘‘ میں کوئی 30 کے قریب غلطیاں نکالیں تو اس پر پہلے تو موصوف نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا بلکہ ایک محفل میں کہا کہ ظفر اقبال کی کچھ باتوں سے مجھے اتفاق ہے اور اس کے بعد بھی ہمارے تعلقات نارمل رہے۔ کالموں میں چھیڑ چھاڑ بھی ہوتی ہے اور فون پر گپ شپ بھی‘ بلکہ ان کے میرے بارے میں ایک کالم کا عنوان تھا ''چھیڑتا ہوں کہ اُن کو غصہ آئے‘‘۔ لیکن اب وہی مضمون ''لاتنقید‘‘ میں شامل ہوا تو گویا لاوا ہی پھٹ پڑا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے میرے بارے میں لکھتے ہیں کہ ''بولتے بہت ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ماں کے پیٹ سے ہی بولتے ہوئے پیدا ہوئے تھے!‘‘ آدمی گالی اس وقت دیتا ہے جب اس کے پاس دلائل ختم ہو جائیں‘ لیکن ان کی اچانک ناراضی کی سمجھ نہیں آئی۔ کیا ایسا تو نہیں ہے کہ فرانسیسی حکومت کی طرف سے دیا جانے والا ایوارڈ ان سے ہضم نہ ہو رہا ہو جو ان کا نہیں بلکہ ان کے لابسٹس کا کمال تھا جن میں مہاجر لابی‘ بھارت نواز (اینٹی پاکستان) لابی اور اردو سپیکنگ لابی وغیرہ شامل ہیں جبکہ میری کوئی لابی نہیں‘ اکیلا ہوں اور اپنے پائوں پر کھڑا ہوں۔ کیا انتظار حسین بھی اپنے پائوں پر کھڑے ہیں؟ اگر ان کی فکشن سے دیومالائیں نکال دی جائیں تو باقی کیا بچتا ہے؟ اور اگر واقعی کچھ بچتا ہو تو مجھے جان کر خوشی ہو گی۔ 
مزید لطف کی بات یہ ہے کہ میں تو ایک اخبار جبکہ صاحبِ موصوف دو اخباروں میں بولتے ہیں‘ اور زیادہ بولنے کا طعنہ مجھے دے رہے ہیں ع 
کیسے تیر انداز ہو‘ سیدھا تو کر لو تیر کو 
آخری بات یہ کہ میں اپنے آپ کو ماہر لسانیات سمجھتا ہوں نہ زبان و بیاں پر کوئی اتھارٹی‘ غلطیاں ہم سب کرتے ہیں‘ کوئی کم کرتا ہے تو کوئی زیادہ۔ اگر کوئی میری غلطی نکالے تو میں اسے اپنا محسن سمجھتا ہوں۔ خدا ہم سب کو نیک ہدایت دے! 
آج کا مطلع 
سیدھا تھا مسئلہ مگر الٹا سمجھ لیا 
غیروں کا غیر تھا جسے اپنا سمجھ لیا 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں