روٹین کی غزلوں‘ سہیلی بوجھ پہیلی قسم کی نظموں اور بے سروپا افسانوں سے گلوخلاصی مطلوب ہو تو ایک ایسا جریدہ منصۂ شہود پر آ چکا ہے جو ان تمام آلائشوں سے پاک ہے۔ نام اس کا ''اردو کالم‘‘ ہے جو اسلام سے شائع ہوتا ہے اور جس میں صرف ادبی مباحث پر اکتفا کی گئی ہے۔ اسے معروف شاعر عابد سیال نے ترتیب دیا ہے جبکہ مجلس مشاورت میں ڈاکٹر ضیاء الحسن‘ ڈاکٹر ناصر عباس رضوی‘ ڈاکٹر قاضی عابد‘ ڈاکٹر طارق ہاشمی اور ڈاکٹر نذر عابد شامل ہیں اور جس کی قیمت ایک سو روپے رکھی گئی ہے۔
یہ غیر مطبوعہ کالموں کا مجموعہ ہے جو تنقیدی مضمونچوں پر مشتمل ہے اور ادبی رسائل میں ایک بالکل نئی چیز ہے اور یہ تنقید بھی اس قدر ٹھوس اور بھاری بھر کم اصطلاحات کی حامل نہیں ہے جو عام قاری کی بجائے صرف محققین کے کام آ سکتی ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد نے ''اقبال سٹڈیز‘ اقبالیات کی تشکیلِ نو کی ضرورت‘‘ پر قلم اٹھایا ہے‘ احمد جاوید کے مضمون کا عنوان ہے ''علمیت کی دھاک بٹھانے کا فن‘‘ جبکہ محمد حمید شاہد کے کالم کا عنوان ہے ''دہشت کے موسم میں کہانی کا چلن‘‘ جبکہ ڈاکٹر ضیاء الحسن کے مقالے کا موضوع ہے ''اردو میں ناول کیوں نہیں‘‘۔ ڈاکٹر صلاح الدین درویش نے ''معاصر غزل کا مسئلہ کیا ہے‘‘ پر خیال آرائی کی ہے‘ قاسم یعقوب کے مضمون کا عنوان ہے ''کیا لاہور میں ادب مر گیا؟‘‘ جبکہ ڈاکٹر نجیبہ عارف کے مضمون کا عنوان ہے ''اردو
زبان کے عصری مسائل اور جامعات کا کردار‘‘۔ شکور رافع کے مقالے کا عنوان ہے ''اگر پاکستانی کلچر نہیں بن پا رہا تو پرانا چل رہا ہے‘‘ جبکہ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے ''اشاریۂ جرائد اردو، کچھ خواب ہے‘ کچھ اصل ہے‘ کچھ طرزِ ادا ہے‘‘ اور ڈاکٹر امجد طفیل نے ''مابعد جدیدیت‘ شاخِ نازک پہ آشیانہ‘‘ پر مضمون باندھا ہے۔ اشکر فاروقی کے مقالے کا عنوان ہے ''استعماری جمالیات اور مابعد نوآبادیات بیانیہ‘‘۔ الیاس بابر اعوان کے مضمون کا عنوان ہے ''روایتی ادبی جمالیات اور معاصر تھیوری کا قضیہ‘‘، ڈاکٹر فرحت عباس نے ''برگدیت اور نئی نسل کی پرورش‘‘ اور ڈاکٹر روش ندیم نے ''نوے کی دہائی‘‘ پر رائے زنی کی ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ نورین کے مضمونچے کا عنوان ہے ''شاعرات سازی‘‘ جبکہ سرمد سروش نے ''معاصر نظم اور اشتباہِ معنی‘‘ اور عابد سیال نے ''آئی شبِ ہجراں کی تمنا مرے آ گے‘‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال کیا ہے۔
مضامین کے عنوان اس لیے دیئے گئے ہیں تاکہ اس مجموعے کی افادیت کا احاطہ کیا جا سکے۔ اگرچہ تنقید کو بالعموم تخلیق کا درجہ نہیں دیا جاتا لیکن یہ مضامین جو ثقہ مصنفین کے قلم سے نکلے ہیں‘ اپنا جواز آپ بھی ہیں‘ کیونکہ یہ قاری کے لیے دلچسپی کا پورا پورا سامان رکھتے ہیں۔ نیز ان میں ادب کی ہر اہم صنف سے اپنے اپنے انداز میں بحت کی گئی ہے۔ یہ خوبصورت مجموعہ ادارۂ تحقیقاتِ اردو کی طرف سے پیش کیا گیا ہے۔
اور اب فاطمہ حسن کی غزلوں سے کچھ اشعار:
ہمارے شہر میں کچھ لوگ ایسے رہتے ہیں
سفر کی سمت بتاتے ہیں جن کو رات کے رنگ
ہوا چلے گی تو خوشبو مری بھی پھیلے گی
میں چھوڑ آئی ہوں پیڑوں پہ اپنے ہات کے رنگ
غیر سے میرا حال پوچھا ہے
کیا خبر کس پہ مہربانی کی
اس زمینِ سخن پہ رہتی ہوں
میرؔ نے جس پہ حکمرانی کی
کیا کہوں اس سے کہ جو بات سمجھتا ہی نہیں
وہ تو ملنے کو ملاقات سمجھتا ہی نہیں
سکونِ دل کے لیے عشق تو بہانہ تھا
وگرنہ تھک کے کہیں تو ٹھہر ہی جانا تھا
وہ دور آیا کہ وہ بھی گھروں کو چھوڑ گئے
جو سوچتے تھے کہ اب مستقل سکونت ہے
کسی نے دی نہیں آواز مجھ کو
مگر پھر بھی یہاں رُکنا پڑا ہے
اسی کے حکم سے بستی لُٹی تھی
اسی کے نام کا جھنڈا گڑا ہے
میں تو بس اک لہر تھی‘ دریا نہ تھی
اس کی گہرائی نے دریا کر دیا
رہبری اب شرطِ منزل کب رہی
آئو ڈھونڈیں راستے کچھ اور ہیں
مل رہے ہیں گرچہ پہلے کی طرح
وہ مگر اب چاہتے کچھ اور ہیں
جب پاس ہو تو چاہوں کہ تجھ سے ہی بات ہو
جب دور ہو تو کوئی ترا تذکرہ کرے
وہ لوگ اٹھ گئے جن سے سروں پہ سایا تھا
جو ہم سفر ہیں وہ پہلے سے مہرباں نہ رہے
جسے بھی دیکھو چلا جا رہا ہے تیزی سے
اگرچہ کام یہاں کچھ نہیں ہے عجلت کا
جو بچھڑ گئے انہیں دے دعا
کوئی آ گیا تو سلام کر
جاتا ہے جو گھروں کو وہ رستا بدل دیا
آندھی نے میرے شہر کا نقشہ بدل دیا
بچھڑ رہا تھا مگر مُڑ کے دیکھتا بھی رہا
میں مسکراتی رہی‘ میں نے بھی کمال کیا
ایک دکھ ہے کہ جو مسلسل ہے
میں تو حیران ہوں روانی پر
اب جفا کا اثر نہیں ہوتا
آنکھ بھیگی ہے مہربانی پر
ان دیکھے فاصلوں نے بنایا ہے دل میں گھر
سب ساتھ ہیں مگر وہ رفاقت نہیں رہی
آج کا مطلع
زمیں پہ ایڑی رگڑ کے پانی نکالتا ہوں
میں تشنگی کے نئے معانی نکالتا ہوں