"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں، متن اور ٹوٹے

جوڈیشل کمشن کا فیصلہ سب کے لیے 
ایک سبق ہے: شہباز شریف 
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''جوڈیشل کمشن کا فیصلہ سب کے لئے ایک سبق ہے‘‘ اور یہ دوسروں کے لئے زیادہ ہے کیونکہ ہم نے تو سارے سبق پہلے سے ہی پڑھ رکھے ہیں بلکہ اس سلسلے میں اگر کوئی ہماری خدمات حاصل کرنا چاہے تو ٹیوشن کی صورت میں یہ سبق پڑھائے بھی جا سکتے ہیں، اور کوئی ہُنر کسی کو آتا ہو تو اُسے عام کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ خلقِ خدا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے کیونکہ سارے کام فائدے کے لئے ہی کئے جاتے ہیں جس کے لئے ہماری مثال بہترین ہے کیونکہ ہم نے کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کیا، ماسوائے ایک دفعہ کے جب آرمی چیف کی چُھٹی کروانے کی کوشش کی تھی لیکن خود ہماری چُھٹی ہو گئی تھی، اس لئے آئندہ اس طرح کا پنگا لینے کی حماقت نہیں کی جائے گی، البتہ دھرنے پر اُکسانے اور حوصلہ افزائی کرنے والوں کی تحقیقات کا جو مطالبہ کیا ہے، اس کے بھی بیک فائر کرنے کا خطرہ ہر وقت موجود ہے، لیکن موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے یہ مطالبہ اور بیان واپس بھی لیا جا سکتا ہے کیونکہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ دینا ویسے بھی کوئی عقلمندی کی بات نہیں اور نہ تاریخ کو یہ موقع دینا چاہئے کہ اپنے آپ کو دُہرانے لگ جائے۔ آپ اگلے روز سیلاب سے متاثرہ مقامات پر خطاب کر رہے تھے۔ 
عمران خان نے ملک و قوم کو بدنام کیا، 
دو سال ضائع ہو گئے: پرویز رشید 
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''عمران خان نے ملک و قوم کو بدنام کیا، دو سال ضائع ہو گئے‘‘ جبکہ ہم نے اپنے کارہائے نمایاں و خفیہ سے ملک و قوم کی نیک نامی کو بام عروج تک پہنچا دیا تھا کیونکہ ایک تو حکومت ایک ہی خاندان پر مشتمل تھی اور سارا کام یکسوئی سے ہو رہا تھا اور دوسرے، ملک و قوم یعنی حکمرانوں کی خوشحالی میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا اور زیادہ تر مال و دولت حفاظت کے نقطۂ نظر سے بیرون ملک بھی ارسال کیا جاتا رہا تاکہ دوسرے ملکوں پر بھی دھاک بیٹھ سکے اور جس سلسلے میں وزیر خزانہ اسحق ڈار صاحب کی مساعیٔ جمیلہ کا کردار سب سے زیادہ ہے، نیز دو سال ضائع ہو جانے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ حکومتی میعاد میں دو سال کا اضافہ کیا جائے تاکہ ملک و قوم کی نیک نامی میں بھی خاطرخواہ اضافہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان عادت سے مجبور ہیں‘‘ بالکل ہماری طرح، کیونکہ ہم بھی یہ سارا مال و متاع عادت کی مجبوری ہی کی وجہ سے جمع کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات کر رہے تھے۔ 
مطالبہ! 
عمران خان نے نااہلی ثابت ہونے پر الیکشن کمشن سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ یہی مطالبہ پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی کیا گیا ہے۔ انتخابات کے دوران جو صریح بے ضابطگیاں کی گئیں اور الیکشن کا مذاق اڑا کر رکھ دیا گیا، اگرچہ جوڈیشل کمشن نے ان کا واجب نوٹس نہیں لیا لیکن اس نے اس ادارے کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے، اس پر اسے خود ہی مستعفی ہو جانا چاہئے۔ اس دوران جو کچھ اور جس طرح سے ہوا ہے اس کا نقشہ مُحبی سینیٹر (ر) طارق چودھری نے اپنے کالم میں خوب کھینچا ہے اُن کا کہنا ہے کہ میں ذاتی تجربے سے گزر کر اس بات کا شاہد ہوں کہ مختلف پولنگ سٹیشن پر خفیہ پولنگ بوتھ موجود تھے جہاں ان لوگوں کے ووٹ ڈالے جاتے رہے جو اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے نہیں آئے تھے۔ دن کی روشنی میں جاگتی آنکھوں کے ساتھ دیکھنے کے باوجود میرے پاس اس کو ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ چار حلقوں کو انگوٹھوں کے نشان کے مطابق جانچنے کا مشورہ دیا تھا۔ حکومت نے طویل مذاکرات میں وقت حاصل کر کے نادرا چیئرمین کو بدل کر ہر جگہ اپنی مرضی کے لوگ تعینات کئے، شواہد بدلے گئے، مٹائے گئے، وہ ادارے جن میں شواہد مل سکتے تھے وہ حکومت کے ساتھ ایک ہی کشتی کے مسافر تھے۔ الیکشن کمشن جو پہلے سے ہموار تھا، اسے مزید راہ پر لایا گیا۔ نادرا نے غیر تصدیق شدہ یعنی جعلی ووٹوں کو جن کی تعداد کُل ووٹوں کے نصف سے بھی زیادہ تھی، ان کو سیاہی کے نام پر مشکوک بنا دیا۔ پھر عدالت نے مشکوک کو اصلی تسلیم کر لیا۔ فارم پندرہ (15) موجود نہیں، اضافی بیلٹ پیپر چھاپے گئے، ناقص سیاہی استعمال ہوئی، الیکشن کمشن کے ممبران جانبدار تھے، نادرا چیئرمین کو بلیک میل کر کے بھگایا گیا، پریزائیڈنگ آفیسرز نے بے قاعدگیاں کیں، الیکشن ٹربیونلز نے چار ماہ کی مقررہ مدت چھوڑ، دوسال تک اپیلوں کے فیصلے نہیں کئے۔ پھر بھی دھاندلی ثابت نہیں ہوئی...؟ 
اور کرپشن؟ 
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبہ ہر قیمت پر مکمل کیا جائے گا۔ اس خوبصورت خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے مسلح افواج کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ منصوبے کے خلاف دشمن کے عزائم سے آگاہ ہیں۔ انہوں نے اقتصادی راہداری کے تحت زیر تعمیر سڑکوں کا معائنہ کیا اور ان کی رفتار اور معیار کو سراہا۔ یہ بات اظہر من الشمس بھی ہے اور عوام کی اکثریت اس پر مطمئن بھی ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ پر نااہل سول حکومت کی بجائے عسکری قیادت خود موجود ہے۔ اصولی طور پر اس منصوبے کا سارا بوجھ سول حکومت 
کو اٹھانا چاہئے لیکن اس میں اس کی اہلیت ہے اور نہ ہی اس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ دہشت گردی کے بعد کرپشن ہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو اس کے جسد اور ساکھ کو گُھن کی طرح چاٹ رہا ہے، لہٰذا آرمی چیف اگر اقتصادی راہداری کے معاملے پر نہ صرف دلچسپی لے رہے ہیں بلکہ اس کی تکمیل کی ذمہ داری بھی اُٹھا رہے ہیں، نیز امور دفاع و خارجہ سمیت دیگر کئی اہم معاملات کا بوجھ بھی انہوں نے اپنے کاندھوں پر اُٹھا رکھا ہے تو کرپشن کے اس ناسور کی طرف ابھی تک ان کی توجہ کا مبذول نہ ہونا سب کے لئے حیرت و استعجاب کا باعث ہے جبکہ بعض ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف بھی ایکشن کے دبے دبے، بلکہ اب تک کُھلے الفاظ میں مطالبہ سامنے آ رہا ہے۔ نیز کراچی میں کرپٹ عناصر کے خلاف ایکشن پر تحسین کیے جانے کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں بالخصوص پنجاب کو کُھلی چھوٹ ملنے پر ہر حلقے میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس لئے یا تو ادارہ اپنے محدود آئینی کردار تک ہی رہے، اور، ملک کے ساتھ جو ہوتا ہے، ہونے دے، یا پھر جہاں جہاں دیگر معاملات پر ایکشن لینے کی ضرورت ہے، انصاف اور غیر جانبداری سے کام لیتے ہوئے سب گھوڑوں گدھوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا اسلوب اختیار کرے ورنہ تاریخ پر یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہمیشہ موجود رہے گا۔ 
آج کا مطلع 
ہیں نقشِ دیوار‘ جابجا سے مٹے ہوئے ہیں 
سو کچھ تو بارش سے کچھ ہوا سے مٹے ہوئے ہیں 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں