جے یو آئی کی تحریک کی واپسی کا حتمی فیصلہ
آج کیا جائے گا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''جے یو آئی کی تحریک کی واپسی کا حتمی فیصلہ آج کیا جائے گا‘‘ جس کیلئے وزیراعظم بہت زور دے رہے ہیں لیکن انہیں بھی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ خاکسارسے کوئی بات منوانے کا طریقہ کیا ہوتا ہے، اس لئے وہ براہ کرم مفتا لگانے کی کوشش نہ کریں اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھیں کہ ہم بھی کوئی آسمانی مخلوق نہیں بلکہ زمینی باشندے ہیںاور زمینی باشندوں جیسی ہی ضروریات بھی رکھتے ہیں، چنانچہ صاحبِ موصوف سے جو ملاقات ہوئی ہے اس کا ایجنڈا تیار کرلیا گیا ہے اور چند معصوم سے مطالبات ان کی خدمت میں پیش کر دیئے جائیں گے اور ان کیلئے بھی یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ بعض مطالبات سے معذرت بھی کرسکتے ہیں، لیکن وہ بھی جانتے ہیں کہ خاکسار سے صاف بچ کر نہیں جا سکتے کیونکہ ویسے بھی سارے کے سارے مطالبات ایسے ہیں کہ وہ بیک جنبش قلم منظور کرسکتے ہیں کیونکہ نئی صورت حال کے پیش نظر انہیں کوئی پوچھنے والا تو ہے ہی نہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
2018ء تک توانائی بحران پر
قابو پالیں گے: اسحاق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ''2018ء تک توانائی بحران پر قابو پالیں گے‘‘ کیونکہ ہماری معیاد بھی وہیں تک ہے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو ہم سے کس نے پوچھنا ہے کیونکہ ہم تو اپنا بوریا بستر لپیٹ چکے ہوں گے؟ بشرطیکہ کہیں درمیان میں ہی کباڑا نہ کردیا جائے جبکہ چاروں طرف سے اشارے کچھ اچھے نہیں مل رہے ہیں، تاہم یہ تو معمولی بحران ہے کیونکہ جو بحران خاکسار پیدا کر رہا ہے اس پر کوئی مائی کا لال قابو نہیں پا سکے گا، حالانکہ روپے کو گردش میں ہی رہنا چاہیے اور اس عاجز مسکین نے اس کے نیچے خاصے پہیے لگا دیئے ہیں جس سے یہ ٹھیک ٹھاک گردش میں رہتا ہے اور چکرکاٹتا کاٹتا دبئی وغیرہ تک پہنچ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان اسی طرح چلتا رہا تو 2050ء تک معاشی لحاظ سے 18ویں نمبر پر آ جائے گا‘‘ جبکہ یہ ہیچ مدان اور دیگر معززین ہمیشہ سے پہلے نمبر پر ہی رہیں گے، یہاں بھی اور بیرونی ملکوں میں بھی بشرطیکہ وہ سارا کچھ واپس کھینچ نہ لایا گیا جس کے خطرات ابھی سے محسوس ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ آپ اگلے روز پشاور میں خیبرپختونخوا چیمبر آف کامرس کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
بلاول بھٹو کی قیادت میں ملک کی
تقدیر بدل دیں گے: ثمینہ گھرکی
پاکستان پیپلزپارٹی لاہور کی صدر ثمینہ گھرکی نے کہا ہے کہ ''بلاول بھٹو کی قیادت میں ملک کی تقدیر بدل دیں گے‘‘ اگرچہ زرداری صاحب اور یوسف رضا گیلانی و دیگر معززین کی قیادت میں بھی ملک کی تقدیر خاصی بدلی جا چکی ہے اور اس کے زیادہ بدلنے کی اب کچھ ایسی گنجائش بھی نہیں ہے اور زرداری صاحب اس ضمن میں زور لگا لگا کراس قدرتھک چکے تھے کہ اب مستقل آرام کی خاطر لندن میں مقیم ہوگئے ہیں اوروہیں سے ملک کی باقی ماندہ تقدیر کے بدلنے کا نظارہ دیکھا کریں گے کیونکہ بلاول بھی ماشاء اللہ انہی کے فرزند ارجمند ہیں اور ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق والد صاحب سے بھی چارقدم آگے جانے کا نیک ارادہ رکھتے ہیں، تاہم ان سے درخواست کی جائے گی کہ ملک کی تقدیر کچھ ضرورت سے زیادہ ہی نہ بدل دیں جس سے یہ بدہضمی کا شکار ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلزپارٹی الیکشن میں بھرپور حصہ لے گی‘‘ اور یقیناً ایسے ہی نتائج کی توقع رکھے گی جیسے اس نے حالیہ الیکشن میں حاصل کیے تھے کیونکہ اس لحاظ سے پارٹی انتہائی مستقل مزاج واقع ہوئی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
ڈاکٹر تحسین فراقی
شاعر، محقق، مدرس، مجلس ترقی ادب کے ناظم اور ہمارے دوست ڈاکٹر تحسین فراقی کو کون نہیں جانتا یعنی ع
ہو گا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے؟
موصوف کی کنیت کے بارے میں فی الحال کچھ واضح نہیں ہے یعنی اگر یہ فراق گورکھپوری کی نسبت سے ہے تو ہمیں ان کے ساتھ ہمدردی ہے اوراگر مستقل حالت فراق میں رہنے کی وجہ سے ہے تو صورتحال پریشان کن ہونے کے باوجود قدرے اطمینان بخش ہے کہ فراق اور تنہائی تو شاعرکیلئے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتی کیونکہ شاعری اسی کی مرہون منت ہے۔ ان کے تازہ کلام کے چند نمونے:
گھر گئے ہم تو عجب بے سرو سامانی میں
کیا رہا فرق قیامت میں اور اس پانی میں
کوہ و صحرا سے اٹھ اے موج ہوائے تازہ
نہ رہی تاب و تواں شہر کے زندانی میں
کون پوچھے گا ہمیں کون بھرم رکھے گا
ہم کہ شامل ہیں فقیری میں نہ سلطانی میں
عشق ناپید ہوا حرف غلط کی صورت
نہ یہ زنگی میں، نہ افرنگی و ملتانی میں
ارض لاوارث الفاظ و معانی میں ہیں قید
خاک اڑتی ہے اب ایوان غزل خوانی میں
دشمن کے ہاتھ ہی اٹھیں بہردعا کہ اب
اپنے تو ہاتھ ہوگئے شل ان دنوں بہت
وہی دشمن اب اس کے دل میں گھر کرنے لگا ہے
اب اس ساحر پہ بھی جادو اثر کرنے لگا ہے
پرانے مشغلے اب اس کو خوش آتے نہیں ہیں
پرانے تذکرے زیروزبر کرنے لگا ہے
بدل ڈالے ہیں اس دوران پیراہن بہت سے
ہوا کے رخ پہ بہنے کا ہنر کرنے لگا ہے
کوئی ایسا کہ جس سے اولیت کو خطر ہو
وہ ایسے ہر پدرکو اب پسر کرنے لگا ہے
آج کا مقطع
ریت ہی تھا کسی سوکھے ہوئے دریا کی، ظفر
اب جو پانی نظر آیا تو کنارا ہوا میں