"ZIC" (space) message & send to 7575

تصانیف مخدوم سید تنویر سبطین شاہ قلندری

سخی شہباز قلندر کے ایک درویش صوفی دانشور مخدوم سبطین نقوی قلندری صاحب سجادہ نشین مسند آل نقی قلندری کی تین کتابیں میرے پیش نظر ہیں۔ پہلی تصنیف ''تنویرالسطین‘‘ ہے جو روحانیات کے حوالے سے ہے۔ دوسری کتاب ''میں ابھی زندہ ہوں‘‘ صاحب موصوف کے اردوکلام کا مجموعہ ہے جبکہ تیسری کتاب ''حکومت فقیر دی‘‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ان کی پنجابی کلام پر مشتمل ہے۔ اگرچہ آپ کا وصال ہو چکا ہے لیکن ان کا چشمہ فیض ہمیشہ کی طرح جارہی ہے اورکثیر تعداد ان کے ماننے والوں کی ہے۔
سب سے پہلے ایک وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ کہ ان کے فرزند ارجمند میرے دوست اورمعروف شاعر ایڈیٹر جان کشمیری ''جزیرہ قرطاس‘‘ گوجرانوالہ کے ہمراہ اگلے روز تشریف لائے تھے اور شاکی تھے کہ پروفیسر عبداللہ بھٹی صاحب نے اپنی کتاب ''فکر درویش‘‘ میں ''تنویرالسطین‘‘ میں سے کوئی 44 صفحات پر مشتمل مواد بغیر کسی حوالہ کے اپنے نام سے شامل کرلیا ہے جس سے صاحب موصوف کے لواحقین اور چاہنے ولوں کی دلآزاری ہوئی ہے اور وہ اس سلسلہ میں قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ بھٹی صاحب کی کتاب کے دیباچہ نگاروں میں چونکہ یہ خاکسار بھی شامل ہے اس لئے وہ حضرات میرے پاس بھی آئے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں بھٹی صاحب سے بات کرکے آپ کو بتائوں گا جس کے بعد میری درخواست پر بھٹی صاحب اس کتاب کا مسودہ لے کرمیرے پاس تشریف لائے جس کے مطابق مذکورہ ساری عبارت نے صرف وردین ہی تھی بلکہ آخر پر
مصنف سید تنویر سبطین نقوی کا اسم گرامی بھی درج تھا جوسہو کی وجہ سے نظرانداز ہوگیا بلکہ بھٹی صاحب نے اپنے جس اسسٹنٹ کے ذمے یہ کام لگایا تھا اس نے محض اپنے نمبر ٹانگنے کے لئے عبارت میں کچھ تحریفات بھی کر دیں جس کا بھٹی صاحب کو بے حد افسوس ہے جو کہ خود صاحب موصوف کے ادنیٰ نیازمندوں میں شامل ہیں اور ان کے مقام و مرتبہ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس کوتاہی پر میرے ذریعے اظہار معذرت کیا ہے بلکہ کہا ہے کہ بہت جلد اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن چھپنے والا ہے جس میں وہ مکمل درستی کرنے کے علاوہ وضاحت اور معذرت بھی پیش کردیں گے۔ بھٹی صاحب چونکہ خود بھی اسی لائن کی ایک معتبر شخصیت ہیں اس لئے ان کی یہ وضاحت اور معذرت قابل قبول ہونی چاہیے۔ کتاب ہذا میں جن موضوعات پر نہایت عالمانہ گفتگو کی گئی ہے اور جن میں جابجا قرآن و حدیث اور دیگر اہم دینی رہنمائوں کے حوالے موجود ہیں، ان میں خراج، حکم عدولی، نعت توشیح برابجد، قصیدہ، منقبت توشیح برمرشد لعل شہباز اور حمد کے زاویے شامل ہیں۔ غرض تشنگان روحانیات کیلئے یہ کتاب ایک گرانقدر تحفے کی حیثیت رکھتی ہے اورجو ہائے نیکی و اصلاح افراد کیلئے یہ روشنی کے مینار کی ایک قائم رہنے والی دستاویز ہے جو عوام میں مسجد مقبول ہوئی اوربہت سے لوگوں نے اس سے فلاح پائی اور مسلسل اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔
دوسری کتاب ''میں ابھی زندہ ہوں‘‘ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے۔ حضرت کے اردو کلام پر مشتمل ہے جونعت، قصیدہ، منقبت،قطعہ، ذکر علی، نوحہ، مرثیہ، سلام توشیح، تشکر مہندی، فقیر نامہ دعا، نظم، مسدس، رخصتی کا احاطہ کرتا ہے۔ دینی سرشاری سے معمور یہ کلام بہت سے لوگوں کے لئے لطف سخن فراہم کرنے کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ ان کی غزل کے کچھ اشعار درج ذیل ہیں۔
سارے مجھ سے طاقتور ہیں سب سے ڈرتا رہتا ہوں
تیری دھرتی پر مولا ہی سہما سہما رہتا ہوں
میرے بچے خاموشی سے مجھ کو تکتے رہتے ہیں
اور میں کوشش کرکے ان سے آنکھ چراتا رہتا ہوں
بستی والے دن میں مجھ کو ہنستابستا پاتے ہیں
شب کو اپنے تکیے پر منہ رکھ کر سوتا رہتا ہوں
میری بیوی میرے جھوٹے پن کا ساتھ نہیں دیتی
اندر جاکے روتی ہے میں باہر ہنستا رہتا ہوں
روحوں کی کائنات کے مالک بدن کے لوگ
کس انجمن پہ چھا گئے کس انجمن کے لوگ
چبھتی ہوئی ادائوں سے کرتے ہیں دلبری
کتنے گلاب فکر ہیں میرے وطن کے لوگ
شاعر بھی ہو ولی بھی نہ ہو،کیسے مان لوں
اقدار کیا بدل گئے دنیائے فن کے لوگ
جس رات آندھیوں نے ستارے نگل لئے
یزداں کا تخت لوٹ گئے اہرمن کے لوگ
آتش فشاں بدوش ہیں سورج بدست ہیں
گو دیکھنے میں لگتے ہیں سرووسمن کے لوگ
نقارہ جہاد کو ہے انتظار ضرب
صف بستہ ہو رہے ہیں امام زمن کے لوگ
جو حرف کے مزار ہیںسبطین دفن ہوں
رہتے ہیں ہر قلم میں وہ الفاظ بن کے لوگ
''حکومت فقیر دی‘‘ میں پنجابی نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں
مرا جتھے ٹھکانہ سی
ترا اوہ آستانہ سی
اوہناں دے نین دا یارو
بڑا ظالم نشانہ سی
سنائی ہیں جسے ہڈ ہستی 
لگے آکھن فسانہ سی
تہانوں ملنا چاند اساں
غزل نے اک بہانہ سی
تیرے سبطین دا سجناں
بڑا دوکھی زمانہ سی
دن دا بھیت کہہ ملیاں نوں
لگ گیا رات دا دھڑکا سانوں
غم سانوں نئیں کوڑے لگدے
پے گیا زہر دا چسکا سانوں
یاد آئیاں کچھ سکیاں شاخاں
جد پھل نظری آیا سانوں
ساڈا سارا بیڑا ڈبا
ہن لئی پھردا دریا سانوں
اسیں گواچے بھیڑ دے اندر
نہ ملیا جو رستاسانوں
لے ٹریا سبطین اڈا کے
اک سکا جیا پتہ سانوں
کتابیں عام مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
آج کا مطلع
دیکھوں وہی تماشہ رُت کی روانیوں میں
کالا کنول کھلا ہو شفاف پانیوں میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں