قاسم ضیا کی گرفتاری سے پارٹی کی
ساکھ کو نقصان پہنچا ہے: زرداری
پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''قاسم ضیا کی گرفتاری سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے‘‘ جسے پہلے تو میں نے کافی حد تک بہتر بنایا اور اس کے بعد حضرت یوسف رضا گیلانی‘ پرویز اشرف‘ مخدوم امین فہیم‘ رحمن ملک اور میاں منظور وٹو سمیت دیگر معززین نے تو اسے بام عروج پر پہنچا دیا تھا اور جس کا مجھ سے بھی زیادہ ان سب کو نہایت افسوس ہے کہ کیسے ان کی برسوں کی محنت پر پانی پھیر دیا گیا ہے جس کی زیادہ تر وجہ سیلاب کا پانی ہی ہو سکتی ہے کیونکہ اتنی بڑی ساکھ پر پھیرنے کے لیے جتنی مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے وہ سیلاب ہی سے حاصل ہو سکتا ہے؛ چنانچہ اب عزیزی بلال اپنے انکل کے ساتھ مل کر اسے بحال کرنے کی سرتوڑ کوشش کریں گے جس کے بعد ٹوٹے ہوئے سروں کو جوڑنے کی تگ و دو شروع کردیں گے اور امید ہے کہ اس نیک کام میں اللہ میاں بھی ان کی مدد کریں گے۔ اس کے علاوہ میرے قیمتی مشورے تو ان کے شامل حال ہوں گے ہی۔ آپ اگلے روز صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
احمق سن لیں‘ پیپلزپارٹی کا جھنڈا
اب میں نے اٹھا لیا ہے: بلاول
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''احمق سن لیں‘ پیپلزپارٹی کا جھنڈا اب میں نے اٹھا لیا ہے‘‘ کیونکہ احمقوں ہی سے کچھ امید ہے کہ میری بات سن لیں گے کیونکہ عقلمند تو مجھے اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی کہ والد صاحب کو دیتے ہیں‘ ویسے بھی اب تک پارٹی کا جھنڈا جو انہوں نے اٹھایا ہوا تھا تو لگتا ایسا ہی تھا کہ خود جھنڈے نے انہیں اٹھا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلزپارٹی ختم ہوئی ہے نہ ہوگی‘‘ اور پنجاب میں تو پیپلزپارٹی کے وجود کا احساس حالیہ انتخابات ہی میں ہوگیا تھا کیونکہ اگر پارٹی کہیں موجود تھی ہی تو اس کی ایسی گت بنی ورنہ اگر وہ ختم ہو چکی ہوتی تو اس کا ایسا حشر کیسے ہونا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''اسٹیبلشمنٹ نے عوام کی بات کرنے والوں کی سزا موت مقرر کر رکھی ہے‘‘ جس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی حسرت ہی اپنے سینے میں لیے والد صاحب نہ صرف ریٹائر ہوگئے ہیں بلکہ بیرون ملک ہی مستقل ٹھکانہ اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں جبکہ پارٹی کے دیگر معززین نے اپنے سابقہ دور میں عوام کی بات کچھ زیادہ ہی زورشور سے کر دی تھی۔ آپ اگلے روز کراچی میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
دھرنے کو سپورٹ کرنے والے
ریٹائر ہو چکے ہیں: جاوید ہاشمی
سینئر سیاسی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''دھرنے کو سپورٹ کرنے والے ریٹائر ہو چکے ہیں‘‘ اسی لیے اب میں ان کے بارے بڑھ چڑھ کر اور نام لے لے کر بیان دینے لگا ہوں کیونکہ وہ دھرنے کو سپورٹ بھی کر رہے تھے اور اُنگلی بھی کھڑی نہیں کر رہے تھے جس سے آخر میں نے مایوس تو ہونا ہی تھا اور کل جب میں تماشائیوں کی گیلری میں بیٹھا قومی اسمبلی کی کارروائی دیکھ رہا تھا تو میرا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا کہ اگر جلد بازی میں استعفیٰ نہ دیتا تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا‘ مزید یہ کہ ضمنی الیکشن میں نواز لیگ والوں نے بھی کوئی تیر نہ مارا‘ یعنی ؎
مری نماز جنازہ پڑھائی غیروں نے
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے
انہوں نے کہا کہ ''عمران خان کا خیال تھا کہ دبائو ڈالیں گے تو اسمبلی ٹوٹ جائے گی‘‘ اور اسی طرح میرا بھی خیال تھا کہ استعفیٰ دے دوں گا تو ضمنی انتخاب میں دوبارہ منتخب ہو کر آ جائوں گا لیکن ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
آپ اگلے روز نہایت دکھے دل کے ساتھ اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
کالاباغ ڈیم پر اے پی سی بلائی
جا سکتی ہے: خواجہ آصف
وفاقی وزیر دفاع و پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''کالا باغ ڈیم پر اے پی سی بلائی جا سکتی ہے‘‘ کیونکہ باقی سارے مسائل چونکہ حل ہو چکے ہیں اور بجلی کا مسئلہ بھی حتمی طور پر حل ہوگیا ہے جو کہ لوگ اب اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں کہ یہ سلسلہ ایسا ہے کہ قیامت تک چلے گا‘ اس لیے اب انہوں نے اس پر صبر کا گھونٹ بھر لیا ہے اور راضی بہ رضا ہوگئے ہیں اور اپنے عوام کی یہی ادا ہمیں سب سے زیادہ پسند ہے کہ ہماری گورننس کو دیکھتے ہوئے بھی ہمیں ہر بار ووٹ دے جاتے ہیں اگرچہ ساتھ ساتھ کچھ ہمیں بھی دال دلیا کرنا پڑتا ہے اور جہاں جہاں ضروری ہو‘ پنکچر بھی لگائے جاتے ہیں بلکہ جہاں جہاں کیا‘ ساری ٹیوب ہی پنکچروں سے بھری ہوئی تھی لیکن شکر ہے کہ اللہ میاں نے اس میں کامیابی دلائی کیونکہ ہر کام کی طرح پنکچروں میں بھی ہم اللہ میاں کی رضا کے طالب رہتے ہیں‘ اگرچہ اے پی سی بلانے کے علاوہ ہمیں یہ فکر بھی رہتی ہے کہ کم بخت عوام اب سیانے ہوتے جا رہے ہیں اور عمران خان جیسوں کے بھرے میں آ کر وہ گمراہ بھی ہو سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ممبر بنیے!
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہذا پولیس و دیگر افسران سے درخواست ہے کہ وہ بھی جوتا کلب کے ممبر بن کر اپنی شہرت میں اضافہ کر سکتے ہیں کیونکہ اس میں جوتا لگنے کا امکان بہت کم ہے کہ جوتا چلانے والوں کی یہ پرلے درجے کی نالائقی ہے کہ ان کا نشانہ ہمیشہ خطا ہو جاتا ہے اور اگر لگ بھی جائے تو جوتا عام طور پر سلیپر یا کوئی اور ہلکی پھلکی طرح کا ہوتا ہے کیونکہ مہنگائی کے اس کمرتوڑ زمانے میں کوئی بھی معتدل آدمی اپنا ہزار ڈیڑھ ہزار کا جوتا ضائع کرنے کا رسک نہیں لے سکتا کیونکہ اس طرح سے چلایا ہوا جوتا واپس دستیاب نہیں ہوتا جسے پولیس والے عام طور پر مال مقدمہ کے طور پر خود ساتھ لے جاتے ہیں‘ تاہم اس کا ایک فائدہ ضرور ہے کہ دوسرا جوتا جو کہ بالکل فالتو اور بے کار ہوتا ہے‘ اسے ایسے ہی کسی موقعہ کے لیے سنبھال کر رکھا جا سکتا ہے اس لیے اس بارے فکر کرنے کی کوئی ایسی ضرورت نہیں ہے کہ ع
داشتہ آید بکار
یعنی داشتہ ہمیشہ کار پر آتی ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔
المشتہر: محکمہ پولیس عفی عنہ
آج کا مطلع
رنگ تھوڑا سا ہے کالا تیرا
اور‘ زیادہ ہے اُجالا تیرا