بہت سی کتابیں اور رسالے جمع ہو گئے ہیں جن کی باری ہی نہیں آ رہی اور میں ان سب سے شرمندہ ہو رہا ہوں۔ سید یونس اعجاز جو پردیسی ہیں اور عرصۂ دراز سے امریکہ میں مقیم اپنی شاعری کی جوت جگائے ہوئے ہیں‘ انہیں مجھے اس لیے بھی ترجیح دینا پڑی کہ انہوں نے جدید طرزِ احساس کا روگ پال رکھا ہے اور نہ ہی انہیں پیرایۂ اظہار کا کوئی ہوکا ہے۔ سیدھے سادے انداز میں کہتے ہیں اور ان کے شعر اتنے مزیدار ہیں کہ مجھے نہیں یاد کہ میں نے کسی شاعر کے اتنے اشعار کالم میں نقل کیے ہوں:
پھر وہ گردن اٹھے دھنک کی طرح
پھر وہ چہرہ کتاب سے نکلے
اُس نے یوں آنکھ سے کیا انکار
سو سوال اِک جواب سے نکلے
تمام رات نہ ہاتھ آئی وصل کی ساعت
تمام رات سوال و جواب کرتے رہے
دل جلے گا تو آہ نکلے گی
آگ کا کام ہے دھواں دینا
مُڑ مُڑ کے دیکھتا رہا حدِ نگاہ تک
واپس بھی آ رہا تھا وہ جانے کے ساتھ ساتھ
سر پر اٹھا کے اپنی پرانی ضرورتیں
چلتا ہوں آنے والے زمانے کے ساتھ ساتھ
مثالِ شیرو شکر جسم و جاں ملے ہوئے ہیں
اُفق اُفق پہ زمیں آسمان ملے ہوئے ہیں
یہ دیکھ لینا دلوں کا ملاپ لائے گا رنگ
بہت دنوں سے کئی بے زباں ملے ہوئے ہیں
نگر نگر یہی منظر اُبھرنے والا ہے
کسی پہ تم تو کوئی ہم پہ مرنے والا ہے
اک عورت کی خاطر لڑ کر سب نے دے دی جان
میرے قبیلے میں پورے کے پورے مرد تھے لوگ
یہ بظاہر سلے سلائے سے لوگ
یوں ہیں اندر سے تار تار کہ بس
پڑھ گئے سبھی تمہیں
کیوں کھلی کتاب ہو
پھر تو سب لوگ مجھے دیکھتے رہ جائیں گے
تُو ذرا دیکھ محبت کی نظر سے پہلے
وار سکتا ہوں اُس پہ جان اعجازؔ
یہ یقیں اُس کو دیکھ کر آیا
ہر حسیں شکل ہے اک دعوتِ نظارۂ نَو
جو بھی ملتا ہے مرا کام بڑھا دیتا ہے
ہم اِدھر اور وہ اُس پار پڑے سوچتے ہیں
جو نہ ہونا ہو وہی کام بہت ہوتا ہے
میرا پیرایۂ عبادت دیکھ
سر ہی اُس نقشِ پا پہ چھوڑ دیا
تھوڑی تھوڑی نفرت بھی ہے بامِ محبت کی سیڑھی
پتھر چلتے ہی رہتے ہیں ہر ٹھوکر سے آگے بھی
عجیب بھول بھلیاں ہیں عشق کی راہیں
چلیں کسی کی طرف‘ جا کدھر نکلتے ہیں
کُنج دل عشق کی جاگیر بنا دی گئی ہے
اب یہ مٹی بڑی اکسیر بنا دی گئی ہے
وہی لبوں پہ شگفتہ‘ نئے بہانے ترے
وہی وصال کی خواہش پھٹی پرانی مری
اب تُو بھی آفتاب کی انگلی پکڑ کے چل
اب واپسی کے راستے آساں نہیں رہے
خلوت میں بُلا کر بھی وہ کھل کر نہیں ملتے
آساں نظر آتے ہوئے‘ دشوار بہت ہیں
وہ کہ بس دل کے دھڑکنے سے لرز اٹھتے تھے
آج لہروں کے تھپیڑوں میں کہاں بیٹھے ہیں
تُو مجھے روکتا رہتا تھا جنہیں ملنے سے
وہ سبھی کتنے مزے میں ترے ہاں بیٹھے ہیں
کیوں مجھے ایک جھلک کے لیے ترسایا گیا
خود ازل سے مری جانب نگراں بیٹھے ہیں
یہ پہلا پہلا تعارف بھی زندگی سے ہے خوب
چمن کے پھول اُسے منہ ہاتھ دھو کے دیکھتے ہیں
راکھ ہے یا دھواں ہے‘ جو کچھ ہے
اب یہی کارواں ہے‘ جو کچھ ہے
دل کی دنیا کو دل کی آنکھ سے دیکھ
سامنے سب کہاں ہے جو کچھ ہے
پیار میں کوششوں کا دخل نہیں
یہ سبھی ناگہاں ہے‘ جو کچھ ہے
بس ایک سچ کے لیے بولتا ہوں سَو سَو جھوٹ
نجانے کب مرا مطلب سخن میں اُترے گا
شوق کا ہم تو کر چکے اظہار
آگے مرضی ہے آپ کی اپنی
وصل کی شب تھے خودغرض دونوں
ہر کسی کو پڑی رہی اپنی
عین ممکن ہے کسی اور طرف لے جائے
دیکھ لیتا ہوں ذرا پھر سے مٹا کر رستا
دل میں پیار کی خواہش ہوتی رہتی ہے
اِس گھر کی آرائش ہوتی رہتی ہے
پہلے کیا کیا تشنہ لب اُٹھ جاتے ہیں
بعد میں کتنی بارش ہوتی رہتی ہے
اپنے دُکھ اس جانب بھیج دیا کیجے
میرے ہاں گنجائش ہوتی رہتی ہے
کپڑا لتّا‘ روٹی دال ملے نہ ملے
بچوں کی پیدائش ہوتی رہتی ہے
مرا اپنا لہو ہے میرا ایندھن
ابھی دل میں توانائی بہت ہے
جہاں تم اور ہم بارش میں بھیگیں
ہمیں اتنی ہی انگنائی بہت ہے
گیا گھِر گھِر کے دل اُس کی گلی میں
بھنور میں نائو چکرائی بہت ہے
کتاب ادارہ رُوداد اسلام آباد نے چھاپی اور قیمت 300 روپے رکھی ہے۔
آج کا مطلع
خدا کی مار دیکھو دم بدم سوئے ہوئے ہیں
قیامت آ چکی ہے اور ہم سوئے ہوئے ہیں