"ZIC" (space) message & send to 7575

بھانت بھانت کی بولیاں

میں چونکہ گھر سے کم ہی نکلتا ہوں اور نوجوان شعراء سے میل ملاقات اسی حساب سے کم ہی رہتی ہے اس لیے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے میرے پسندیدہ شاعر ادریس بابر دوسرے چوتھے‘ پانچ سات ابھرتے ہوئے نونہالوں کے ساتھ پھیرا لگاتے ہیں۔ اگلے روز انہوں نے چکر لگایا تو اس نشست میں سے کچھ اشعار میرے ڈھب کے بھی نکل آئے جو پیش ہیں: 
پھول البم میں پڑے ہیں کہ اب ان کے بدلے
تیری تصویر کو گلدان میں رکھا ہوا ہے
(عدیل قمر‘ ملتان)
پڑی ہیں بام پر آنکھیں کسی کی
جسے آنا تھا واپس آ چکا ہے
یہ کیسی خامشی ہے شب کدے میں 
تو کیا وہ خواب دیکھا جا چکا ہے
(نصراللہ حارث‘ چنیوٹ)
اکٹھے چلتے ہیں کچھ بات چیت کرتے ہوئے
پھر اگلے موڑ پہ میں اپنے ساتھ ہو لوں گا
(معید مرزا‘ڈیرہ غازی خان)
ملاحوں کا دھیان بٹا کر دریا چوری کر لینا ہے
قطرہ قطرہ کر کے میں نے سارا چوری کر لینا ہے
(تہذیب حافی‘لاہور)
بھیس دیئے کا دھار کر‘ تیری دعا سنوار کر
بیچ میں طاقچہ ہے اور دونوں طرف کھڑا ہوں میں
(فیضان ہاشمی‘ سرگودھا)
بڑی مشکل سے نیچے بیٹھتے ہیں
جو تیرے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں
اور اب اٹھنا پڑا نا اگلی صف سے
کہا بھی تھا کہ پیچھے بیٹھتے ہیں
نتائج جب سرِ محشر ملیں گے
محبت کے الگ نمبر ملیں گے
تمہاری میزبانی کے بہانے
کوئی دن ہم بھی اپنے گھر ملیں گے
تیرے حامی ہیں‘ سو اٹھ کر بھی نہیں جا سکتے
جانے کس وقت یہاں رائے شماری ہو جائے
(خرم آفاق)
یہ غنیمت ہے جانے والوں نے
فون پر رابطہ رکھا ہوا ہے
یہ کوئی زندگی گزر رہی ہے
یا کوئی لفٹ میں پھنسا ہوا ہے
سارا کچھ لگ رہا ہے بے ترتیب ایک شے آگے پیچھے ہونے سے 
ہم کو نیچے اتار لیں گے لوگ عشق لٹکا رہے گا پنکھے سے 
یہ محبت وہ گھاٹ ہے جس پر
داغ لگتے ہیں کپڑے دھونے سے
میں اس شخص سے تھوڑا آگے چلتا ہوں
جس کا میں نے پیچھا کرنا ہوتا ہے
(ضیا مذکور‘اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور)
ذرا سا مل کے بتائو کہ ایسے ملتے ہیں
بہت پتا ہے تمہیں چھوڑ جانا آتا ہے
یہ بات چلتی ہے‘ سینہ بہ سینہ چلتی ہے
وہ ساتھ آتا ہے شانہ بہ شانہ آتا ہے
چھلک نہ جائے مرا رنج تیری آنکھوں سے
تجھے تو اپنی خوشی کو چھپانا آتا ہے
پتا نہیں کہ وہ کیا سوچ کر چلا آیا
خبر نہیں کہ وہ کیا سوچ کر چلا جائے
اصول ہمسفری میں یہ گرد شامل ہے
جسے قبول نہیں ہے وہ گھر چلا جائے
یہ آگ میری ہے وہ مرے ساتھ چل بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
گناہ کا باغ صبح تک پھول پھل بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
ٹکٹ ترے پاس بھی نہیں ہے ‘ ٹکٹ میرے پاس بھی نہیں ہے
اور اس کا مطلب ہے تو مرے ساتھ چل بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
رسول زادے نہیں مگر ہم بھی ایڑیاں تو رگڑ رہے ہیں
خدا نہ کردہ کہیں سے چشمہ ابل بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
شہر میں دو طرح کے موسم ہیں
مال کے پاس اور مال سے دور
تیری اور میری ہر غلط فہمی
ہو بھی سکتی تھی ایک کال سے دور
(ادریس بابر‘لاہور)
اور احمد خیال کے یہ اشعار ہمیں ڈاک سے موصول ہوئے ہیں: 
اگر یہ باغ کی جانب کا دروازہ نہ ہوتا
تو ممکن تھا کہ میں اتنا ترو تازہ نہ ہوتا
قدو قامت کے سب اسرار کھلتے جا رہے ہیں
چلو اچھا ہوا کچھ یار کھلتے جا رہے ہیں
طلسمی وادیوں میں قافلہ چلتا رہے گا
اگر رک بھی گیا تو راستہ چلتا رہے گا
عام لوگوں پہ کھل نہیں پاتا
جو اشارہ اشارے اندر ہے
پہلے کروں گا چھت پہ بہت دیر گفتگو
پھر اس کے بعد چاند کو زینے میں لائوں گا
سنہری جل پری دیکھی تو پھر پانی میں کودے
وگرنہ ہم تو دریا کے کنارے جا رہے تھے
پرندے اور بچے ہیں یہاں پر
یہاں پر خودکشی مت کیجئے گا
آج کا مطلع 
یہ کاروبار ہے‘ ایسا ہی اور ہونا تھا 
زیاں کچھ اس میں ہمارا ہی اور ہونا تھا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں