چکوال سے ہمارے دوست مرزا احمد نور طائر نے پرسوں والے کالم کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمیل یوسف نے جس غزل پر اعتراض کیا تھا وہ یہ نہیں بلکہ دوسری یعنی یہ تھی:
ہیرا پھیری خوب ہے
دنیا تیری خوب ہے
بے لگام تھی کائنات
تُو نے گھیری خوب ہے
بیر ستاروں کے لگے
اِس کو، بیری خوب ہے
غائب ہو جب چاندنی
رات اندھیری خوب ہے
دنیا کسی کی بھی نہیں
تیری میری خوب ہے
آنکھیں اسے دکھائی ہیں
یہی دلیری خوب ہے
چکّر اچھا ہے سبھی
شام سویری خوب ہے
منہ ہے چاند سا چمکتا
ٍُزُلف گھنیری خوب ہے
گھوڑی سے بڑھ کر‘ ظفرؔ
چلے بچھیری خوب ہے
مغالطہ اس لیے ہو گیا کہ رسالہ جس میں یہ غزل چھپی تھی‘ اور بعد کا شمارہ جس میں جناب جمیل یوسف کا مکتوب شائع ہوا‘ میرے پیش نظر نہیں تھے کہ میں سارے رسالے سنبھال کر رکھتا بھی نہیں۔ دونوں غزلیں چونکہ ایک ہی مزاج کی تھیں اس لیے اصل غزل نقل ہونے سے رہ گئی جبکہ میں اس غزل کو زیادہ 'اون‘ کرتا ہوں کیونکہ یہ حمدیہ ہے۔ یہ وضاحت اس لیے بھی ضروری تھی کیونکہ موصوف اس غلط فہمی پر میرا محاسبہ کرنے کو تیار ہی بیٹھے ہوں گے۔ سوچا کہ خود ہی واضح کردوں۔
جمیل یوسف صاحب سے میرا پہلا ٹاکرا کئی سال پہلے اس وقت ہوا جب انہوں نے اقبال ساجدؔ کا یہ مصرع 'رہا ہوئے تو پرندے اُڑان بھول گئے‘ اپنی غزل میں جڑ دیا تھا‘ بغیر حوالے یا واوین کے۔ میں نے کالم میں اس کا نوٹس لیا تو موصوف غلطی تسلیم کرنے کی بجائے بس آئیں بائیں شائیں ہی کرتے رہے۔ پھر کئی سال بعد اوکاڑہ چھائونی میں اُن کی تعیناتی ہوئی تو آنا جانا ہوتا رہا۔ پھر وہ ریٹائر ہو گئے تو ہمارے دوست اور صحافی اطہر مسعود کے بیٹے کی شادی کی تقریب میں اُن سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں بتایا کہ میں نے کچھ شاعروں پر مضامین لکھے ہیں‘ آپ پر لکھنے کا ارادہ تھا لیکن پھر خیال ترک کردیا۔ میں نے کہا‘ اچھا ہی کیا‘ یہ آپ کے بس کا روگ بھی نہیں تھا! مصرعے کے بارے میں اگر کہہ دیتے کہ بھول چوک میں ایسا ہو گیا ہے تو بات ختم ہو جاتی کیونکہ ایسا اکثر ہو جاتا ہے اور ایک آدھ بار میرے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔ ایک بار میری ایک غزل کا مطلع تھا ؎
یہ شہر چھوڑ دے کہ شرافت اسی میں ہے
رسوائے شہر‘ اب تری عزت اسی میں ہے
ایک دفعہ پرانے رسائل کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ رسالہ ''اوراق‘‘ میں دوسرا مصرع شہزاد احمد کی غزل میں نظر پڑا‘ جس پر میں نے شہزاد کو بتایا اور کالم میں بھی لکھا۔ اس کے تین درجے ہیں یعنی چوری‘ توارد اور عطا۔ چوری اور توارد تو وضاحت طلب نہیں‘ البتہ عطا وہ ہے جو کسی ہم عصر کی طرف سے ہو۔ مثلاً میں ایک بار ''سویرا‘‘ کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ محمد سلیم الرحمن نے شرارتاً یہ شعر لکھ کر میری طرف کھسکا دیا ؎
شاعر وہی شاعروں میں اچھا
کھا جائے جو شاعری کو کچّا
چنانچہ میں نے شکریہ کے ساتھ قبول کرتے ہوئے اس مطلع پر پوری غزل کہی جو ''گلافتاب‘‘ میں موجود ہے۔ اسی طرح‘ ایک بار ساہیوال میں بیٹھے تھے۔ منیر نیازی اپنی تازہ غزل سُنا رہے تھے جس میں یہ شعر بھی تھا جو یاد رہ گیا ہے ؎
گئے دنوں کی روشنی
کہاں ہے تُو‘ کہاں ہے تُو
تو مجید امجد جو پاس ہی بیٹھے تھے انہوں نے ارتجالاً یہ شعر کہا ؎
یہ اک خلائے دم بخود
یہ اک جہانِ آرزو
جسے منیر نیازی نے اپنے مجموعہ میں شامل کر لیا۔
منیر نیازی اپنا ایک شعر بہت مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے اور جو ایک طرح سے ان کی شناخت بن گیا کہ ؎
کجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
اس پر ایک سرائیکی شاعر (غالباً طالبؔ جتوئی‘ کہ ان کے نام میں جتوئی ضرور آتا ہے) نے بے حد شور مچایا کہ یہ شعر اُن کا ہے اور ان کی کتاب میں اس طرح درج ہے ؎
کجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں ہن کجھ گل وچ غم دا طوق وی ہاہ
کجھ شہر دے لوک وی ظالم ہاہن کجھ ساکوں مرن دا شوق وی ہاہ
جسے منیر نیازی نے تھوڑا سیدھا کر کے اپنے کلام میں شامل کر لیا ۔ اس شبے کو تقویت اس بات سے پہنچتی ہے کہ دونوں شعر مختلف بحروں میں ہیں۔ منیر نیازی اس سے پہلے جو شعر سنایا کرتے تھے وہ یہ ہے ؎
کس دا دوش سی کس دا نئیں سی‘ ایہہ گلاں ہن کرن دیاں نئیں
ویلے لنگھ گئے سوگاں والے‘ راتاں ہو کے بھرن دیاں نئیں
بہرحال وہ شعر اب منیر نیازی ہی کے شعر کے طور پر مشہور ہے۔
کئی سال پہلے عطاالحق قاسمی کے رسالے ''معاصر‘‘ میں ایک خاتون نے مضمون لکھا کہ اُس نے اپنے ایک ناول کا مسودہ عبداللہ حسین کو پڑھنے کے لیے دیا تھا جو موصوف نے من و عن اپنے نام سے چھپوا دیا۔ اس پر کسی نے صاحبِ موصوف سے اس کی وضاحت چاہی تو انہوں نے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ مجھے ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ واللہ اعلم بالصواب...!
آج کا مطلع
ظفرؔ شہر میں آ تو گیا ہوں
مری خصلت بیابانی رہے گی