"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور ٹوٹے

کرپشن کا خاتمہ سیاستدانوں کی ذمہ داری
ہے‘ ادارے حدود میں رہیں: خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ''کرپشن ختم کرنا سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے‘ ادارے اپنی حدود میں رہیں‘‘ اور سیاستدانوں نے ماشاء اللہ کرپشن ختم کرکے بھی دکھائی ہے اور ہمارے گزشتہ دور حکومت میں وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی‘ پرویزاشرف‘ مخدوم امین فہیم‘ رحمن ملک‘ منظور وٹو اور دیگر زعماء دن رات اسی کام میں تو مصروف رہا کرتے تھے جس سے انہیں اتنی فرصت بھی نہیں ملتی تھی کہ اس بات کا علم حاصل کر سکیں کہ مثلاً مخدوم صاحب کے بینک اکائونٹ میں کوئی چار کروڑ روپے کیوں ڈال گیا اور گیلانی صاحب کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوسکی تھی کہ کوئی ان کے نام کہاں کوئی کوٹھی اور کہاں کوئی پلاٹ لگا گیا ہے جبکہ یہ صحیح معنوں میں اللہ لوک تھے اور روپے پیسے سے انہیں اتنی نفرت تھی کہ یہ چیز کبھی ان کی راہ میں آئی بھی تو انہوں نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا نہ اسے کبھی چھوا بلکہ فوراً ہی اس سے جان خلاصی کروائی اور اسے بیرون ملکی بینکوں میں دفع دفان کردیا بلکہ گیلانی صاحب کا تو سارا ٹبر ہی کرپشن کے قلع قمع میں دونوں ہاتھوں سے لگا ہوا تھا۔ آپ اگلے روز سکھر میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ایک عجیب و غریب رپورٹ
نیب اور ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق پنجاب میں ارکان پارلیمنٹ کی تعمیراتی گرانٹ کی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ کام شروع ہونے سے پہلے ہی ٹھیکیداروں سے 10 سے 15 فیصد کمیشن لیا جاتا ہے۔ اب بجائے اس کے کہ اس حسنِ احتیاط کی تعریف کی جائے اُلٹا یہ ادارے اسے کوئی اور ہی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اخلاقی گراوٹ کا جو چلن عام ہے اس کے مطابق اگر پیشگی کمیشن نہ دیا جائے تو بعد میں کون پلہ پکڑواتا ہے اس لئے ان معززین کی دوراندیشی کی داد دینی چاہئے نیز کیا بصورت دیگر نیب اور ایف آئی اے اس بات کی گارنٹی دیتے ہیں کہ اگر پیشگی نہ لئے گئے تو حق حلال کی یہ کمائی ماری نہیں جائے گی؟ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ 15 سے 25 فیصد کمیشن کام شروع ہونے کے بعد متعلقہ محکموں کے افسروں اور آڈٹ حکام نے وصول کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ مرحلہ کام ختم ہونے کا نہیں بلکہ کام شروع ہونے کا ہے جس میں اتنی احتیاط ہی کافی سمجھی گئی۔ پھر کہتے ہیں کہ ملازمتیں دلانے پر بھی رشوت وصول کی گئی۔ ان سے بندہ پوچھے‘ بھولے بادشاہو! کیا آج تک رشوت کے بغیر بھی کہیں کوئی ملازمت دی گئی ہے؟ کم علمی کا اگر عالم یہی ہے تو یہ ملک خاک ترقی کرے گا؟
کارگزاری...!
انسٹی ٹیوٹ آف سوشل پالیسی سائنسز کی ایک رپورٹ جو اعلیٰ حکام اور اپوزیشن رہنمائوں کو بھی پیش کی گئی ہے‘ کے مطابق پنجاب میں 51 ہزار سکولوں میں 62 ہزار 775 اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں‘ 1727 اداروں کی عمارتیں خطرناک قرار پا چکی ہیں۔ پنجاب کے 6514 سکولوں میں بجلی‘ 612 میں بیت الخلا‘ 395 میں پینے کا صاف پانی اور 2706 میں سکولوں کی چاردیواری نہیں ہے جبکہ تعلیم کا بجٹ بڑھانے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ پچھلے دنوں 7000 روپے ماہانہ پر چند سو ٹیچرز بھرتی کرنے کی فیاضانہ کارروائی کی خبر آپ پڑھ ہی چکے ہوں گے۔
یہ صرف ایک محکمے یعنی تعلیم کی صورتحال ہے جبکہ محکمہ صحت کی حالت اس سے بھی ابتر بیان کی جاتی ہے‘ لیکن حکومت کی طرف سے مختلف شعبوں میں کارکردگی کروڑوں کے اشتہارات کے ذریعے عوام کو بتائی جاتی ہے۔ مذکورہ بالا محکموں کی بہتری میں اگر فنڈز کی کمی حائل ہے تو اربوں کی لاگت سے میٹرو بس اور اسی طرح کے دیگر عیاشانہ منصوبوں کے لئے فنڈز کہاں سے آتے ہیں اور یہ حکومتی ترجیحات کی صرف ایک جھلک ہے جو ہمارا آپ کا ایمان تازہ کرنے کے لئے کافی ہونی چاہئے۔
جانبداری...؟
ایک موقر قومی روزنامے کے مطابق 22 اہم شخصیات کی گرفتاری کے حوالے سے تحقیقاتی ادارے کے اعلیٰ حکام نے وزیراعظم کو اعتماد میں لے لیا ہے۔ ان معززین میں دو سابق وزرائے اعظم‘ سابق صدر‘ ایف بی آر کے 3 سابق چیئرمینوں سمیت متعدد بیوروکریٹس شامل ہیں جن کی چند ہی دنوں میں گرفتاری کا امکان ہے۔ حالات جس رُخ پر جا رہے تھے ان کے مطابق یہ بظاہر کوئی خبر نہیں بلکہ ایسا تو ہونا ہی تھا اور عوام کی اکثریت کی طرف سے اس کا خیرمقدم بھی کیا جائے گا لیکن جیسا کہ پیپلزپارٹی والے شور مچا رہے ہیں کہ یہ صرف انہی اور انہی کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے‘ اس کی صداقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس طرح سے موجودہ حکومت کو کلین چٹ دیئے جانے کا اشارہ صاف نظر آ رہا ہے اور لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا وفاق اور پنجاب حکومت میں بالخصوص سارے صوفی ہی بیٹھے ہیں؟ جن کے خلاف آئے دن اربوں کی کرپشن کے سکینڈل سامنے آ رہے ہیں اور حکومت نے جن کی تردید کرنے کی بھی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اور اگر اس سلسلے میں وزیراعظم ہی کو اعتماد میں لیا جانا مشروط ہے تو اس کی نوبت کبھی نہیں آئے گی اور عوام میں اس سے خلفشار بھی پیدا ہوگا۔
قانون یا فراڈ؟
ایک سابق ڈپٹی سیکرٹری کے انکشاف کے مطابق سابق وزیراعظم گیلانی نے اربوں کی کرپشن کی جبکہ ایک اور اطلاع کے مطابق کرپشن ہی کے الزام میں ڈاکٹر عاصم کے خلاف بھی کم و بیش 6 ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ مزید ایسے سورمائوں کے نام بھی سامنے آنے والے ہیں لیکن اگر کل کلاں ہونا یہی ہے کہ ان حضرات نے پلی بارگیننگ کے ذریعے غبن کی گئی آدھی رقم خزانے میں جمع کروا کر صاف چھوٹ جانا ہے اور نہائے دھوئے گھوڑے بن جانا ہے تو ملک اور عوام کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کوئی نہیں ہو سکتا جبکہ یہ قانون بنایا ہی کرپٹ افراد کو سہولت بہم پہنچانے کے لئے تھا۔ چنانچہ کرپشن کے ذریعے لوٹے گئے اربوں روپوں میں سے کم و بیش آدھی رقم ان لوگوں کے لئے شیرمادر کی حیثیت رکھے گی۔ اس لئے جب تک اس مضحکہ خیز قانون کو ختم نہیں کیا جاتا‘ ملک و قوم کے ساتھ یہ سفاکانہ مذاق جاری و ساری ہی رہے گا۔ اس صورت میں پنجاب وغیرہ سے بھی ایسے زعماء کو گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہوگی بلکہ انہوں نے ابھی سے آدھی رقم نکال کر الگ رکھ لی ہوگی جو نیب وغیرہ کے متھے مار کر وہ نیک پاک ہو جائیں گے!
آج کا مطلع
میں نے کب دعویٰ کیا تھا سر بسر باقی ہوں میں
پیش خدمت ہوں تمہارے جس قدر باقی ہوں میں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں