ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے
تو مجھے اُلٹا لٹکا دیا جائے... شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''اگر میرے خلاف ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے تو مجھے اُلٹا لٹکا دیا جائے‘‘ لیکن چونکہ دھیلا سکہ رائج الوقت ہی نہیں ہے‘ اس لیے اس کی کرپشن کیسے ثابت ہوگی‘ نیز جہاں کروڑوں اور اربوں کی کرپشن ہو سکتی ہو وہاں دھیلے کی کرپشن کون بیوقوف کرے گا‘ اور جہاں تک اُلٹا لٹکانے کا سوال ہے تو یہ ویسے ہی بہت غیرشریفانہ کام ہے اور اسی لیے عام انتخابات سے پہلے ہزار دعوئوں اور اعلانات کے باوجود ہم نے زرداری صاحب کو اُلٹا نہیں لٹکایا‘ حتیٰ کہ پھانسی کے مجرم کو بھی نہایت شریفانہ طریقے سے سیدھا ہی لٹکایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں اپنے آپ کو عوام کا خادم سمجھتا ہوں‘‘ اور اگر عوام ایسا نہیں سمجھتے تو یہ اُن کی سمجھ کا قصور ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نندی پور پاور پروجیکٹ کے حوالے سے 81 ارب کی بات درست نہیں‘‘ کہ یہ زیادہ سے زیادہ 75 ارب ہو سکتی ہے جو کہ معمولی بات ہے‘ اور ایسا تو کئی دوسری جگہوں پر بھی ہو رہا ہے کیونکہ اس سے کم تو ویسے بھی کرپشن کی توہین کے مترادف ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
دنیا کی کوئی طاقت پیپلز پارٹی کو ختم نہیں
کر سکتی... بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''دنیا کی کوئی طاقت پیپلز پارٹی کو ختم نہیں کر سکتی‘‘ کیونکہ کسی چیز کو ختم کرنے کے لیے اُس کا ہونا بھی ضروری ہے اور اگر اب پارٹی کا صرف ہیولیٰ ہی باقی ہے تو اُسے ختم کرنے کا تردد کرنے کی کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے جو اپنے سارے کام چھوڑ کر اسے ختم کرنے کے در پے ہو جائے اور‘ اول تو بچی کھچی پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لیے والد صاحب کے ساتھ ساتھ انکلوں سمیت میں خود ہی کافی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''جلد جنوبی پنجاب سے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کروں گا‘‘ بلکہ میرا تو بس بہانہ ہی ہے ورنہ پارٹی تو اصل میں اب بھی ابا جان اور پھوپھی صاحبہ ہی چلا رہی ہیں اور فی الحال ریموٹ کنٹرول ہی سے کام لیا جا رہا ہے کیونکہ دونوں احتیاطاً بیرون ملک مقیم ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ احتیاط مستقل صورت ہی اختیار کر جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''پارٹی میں کرپٹ لوگوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘ اور جملہ بزرگوں کو کہہ دیا گیا ہے کہ گزشتہ را صلوٰۃ‘ آئندہ احتیاط‘ اگرچہ آئندہ یہ موقعہ ملنے کے امکانات نہ ہونے ہی کے برابر ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں مختلف وفود سے خطاب کر رہے تھے۔
وِد ہولڈنگ ٹیکس سے تاجر طبقہ معاشی
طور پر پِس رہا ہے... منظور وٹو
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''وِد ہولڈنگ ٹیکس سے تاجر طبقہ معاشی طور پر پِس رہا ہے‘‘ اگرچہ سیاسی طبقہ یعنی ہم لوگ تو معاشی طور پر نہیں پِس رہے کیونکہ ہم نے سابقہ پانچ سالہ اقتدار میں اپنی ہڈی پورے طور سے گانٹھ لی ہے جو ماشاء اللہ نسل ہا نسل کے لیے کافی ہے‘ البتہ ہمارے طبقے کو سیاسی طور پر مقدمات کے ذریعے پِیسنے کی ضرور کوشش کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ہماری تقریباً ساری قیادت ملک سے باہر بیٹھی ہے اور جن کے بغیر خاکسار ہی گلشن کا کاروبار چلا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ فریضہ مستقل طور پر ہی سرانجام دینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم تاجروں سے مکمل طور پر یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں‘‘ کیونکہ اب ہمارے پاس اس طرح کے اظہار ہی باقی رہ گئے ہیں‘ باقی تو درجہ بدرجہ خیریت ہی نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت وِد ہولڈنگ ٹیکس کو واپس لے‘‘ بلکہ دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے ہمارے خلاف مقدمات بھی واپس لے لے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
کرپشن کے سلسلے
ایک اخباری اطلاع کے مطابق ریجنل ماسٹر پلان خانہ پُری تک محدود ہے جس میں اب تک کروڑوں روپے تنخواہوں کی مد میں وصول کیے جا چکے ہیں۔ اسی طرح ریور راوی فرنٹ زون منصوبہ بھی ناقص منصوبہ بندی اور کنسلٹنٹ کے غلط انتخاب کی نذر ہو چکا ہے۔ لیکن یہ کوئی پہلا منصوبہ نہیں بلکہ ایسے لاتعداد سرکاری منصوبے خانہ پُری تک محدود ہیں جن میں اپنے پسندیدہ افراد کو بھرتی کیا گیا جو مفت کی تنخواہیں وصول کر رہے ہیں جبکہ آئے دن یہ حکومتی اعلان سامنے آتا ہے کہ کوئی ایک پیسے کی کرپشن بھی ثابت نہیں کر سکتا حالانکہ یہ منصوبے خود کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور جنہیں مزید ثابت کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ تازہ خبریں یہ ہیں کہ نان اور روٹی کے نرخ بڑھ گئے ہیں جبکہ پرانی قیمت پر فروخت کرنے والوں نے ان کا وزن کم کردیا ہے۔ نیز بزرگ شہریوں کے لیے ہسپتالوں میں بنائے جانے والے خصوصی کائونٹر ختم کر دیئے گئے ہیں جس سے آئوٹ ڈورز میں چیک اپ کروانے میں شدید مشکلات پیش آنے کی اطلاعات ہیں جبکہ ویل چیئرز کی عدم دستیابی کے باعث بزرگ مریضوں کو دشواری پیش آ رہی ہے اور وارڈ بوائے کو پیسے دیئے بغیر چیئر کا حصول ناممکن ہے۔ اور یہ سارا کچھ کرپشن ہی کی ذیل میں آتا ہے کیونکہ غلط ترجیحات اور بدحکومتی بجائے خود سب سے بڑی کرپشن ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے کراچی میں شروع کی جانے والی کارروائی بھی ٹھنڈ پروگرام میں شامل ہو رہی ہے۔ سکیورٹی ادارے جگہ جگہ چھاپے مار کر ریکارڈ اور فائلیں وغیرہ ضرور قبضے میں لے رہے ہیں لیکن کوئی مزید گرفتاری عمل میں نہیں آ رہی اور شاید اسی وجہ سے پیپلز پارٹی والوں کی بڑھکیں ختم ہو چکی ہیں اور مزید اور بڑے مجرمان کی فہرستیں وصول ہو جانے کے باوجود کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آ رہی۔ اِدھر یوسف رضا گیلانی کی گرفتاری سے نیب کو روک دیا گیا تاکہ وہ ضمانت کروا سکیں۔ ہر روز بڑی مچھلیوں کے گرد گھیرا تنگ ہونے کی خبریں سنتے ہیں لیکن جملہ بڑی چھوٹی مچھلیاں اسی طرح کھلے پانیوں میں سیر سپاٹے کرنے میں مشغول ہیں۔ صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود احمد کے خلاف انکوائری شروع کیے جانے کی خبر آئی ہے لیکن صاحبِ موصوف کے بقول وہ وڈیو کیس میں ہائیکورٹ سے بے گناہ قرار دیئے جا چکے ہیں۔ اس لیے یہ کارروائی بھی کاسمیٹک ہی نظر آتی ہے۔ وفاقی سطح کے کسی بڑے سکینڈل کو ابھی ٹچ نہیں کیا گیا‘ حتیٰ کہ پنجاب کی سطح پر بھی ایسے سکینڈلز کی بھرما رہے اور جن سے اخبارات کے صفحات بھرے پڑے ہیں لیکن راوی ہر طرف چین ہی لکھتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ساری مہم بے نتیجہ ہی رہ جائے گی اور اس سلسلے کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ اور‘ اگر ایسا ہوا تو کرپشن کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کو بھی اطمینان کا سانس لینے کا موقعہ مل جائے گا جس سے بڑی بدقسمتی ملک کے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
آج کا مطلع
باقی ہے ابھی شام روکائو تو ساروں
رہتا ہے ابھی کام روکائو تو ساروں
(روکائو تو ساروںگجراتی بمعنی رک جائو تو جانوں)