"ZIC" (space) message & send to 7575

احوال ایک تقریب کا

عنبرین صلاح الدین اور سجاد بلوچ کی شادی ہو گئی۔ میرے چونکہ دونوں پسندیدہ شاعر تھے اور دونوں کی طرف سے شرکت کے لیے اصرار بھی ہوا‘ اس لیے میں نے نیم رضامندی کا اظہار کردیا۔ مجھے بتایا گیا کہ تقریب ازمیرٹائون میں ہوگی جہاں جوبلی ٹائون سے ہو کر پہنچنا ہوگا لیکن مجھے ایک تو راستے کا پتا نہیں تھا اور دوسرے وہ یقینی شرکت کے بھی خواہشمند تھے‘ اس لیے کہا کہ ہم آپ کو گاڑی بھیج کر منگوا لیں گے۔
میرے بعد سعود عثمانی پہنچے اور اس کے بعد جناب مجیب الرحمن شامی‘ جو جہاں بھی ہوں‘ میر مجلس ہی ہوتے ہیں‘ تھوڑی ہی دیر میں امجد اسلام امجد‘ ڈاکٹر ابرار احمد اور ایوب خاور بھی آ شامل ہوئے۔ شمشیر حیدر بارات کے ساتھ ہی آئے تھے۔ بہرحال ان کے پہنچنے سے پہلے پہلے میں اور سعود عثمانی ایک دوسرے کو اپنی تازہ غزل سنا چکے تھے۔ روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں مجھے عباس اطہر لے گئے تھے جو ان دنوں گروپ ایڈیٹر تھے۔ مالک ایڈیٹر محمد اکبر بھٹی تھے اور شامی صاحب کی انٹری ابھی اخبار میں نہ ہوئی تھی‘ البتہ حمید جہلمی اس وقت بطور ایڈیٹر موجود تھے۔ نذیر حق اور عطاء الرحمن بھی سٹاف میں شامل تھے۔
میں نے اخبار چھوڑا تو سابق اخبار کے ایڈیٹرنے فون کیا کہ واپس آ جائیں۔ میں نے کہا کہ اب تو ممکن نہیں۔ پھر کہا کہ چلیں‘ وہاں بھی لکھتے رہیں اور ہمارے ہاں بھی۔ میں نے کہا کہ مجھے تو یہ قبول ہو سکتا ہے‘ دوسرے اخبار والوں کو نہیں۔ میں نے کم و بیش ہر اخبار میں لکھا ہے لیکن جو مزہ مجھے شامی صاحب کے ساتھ آیا‘ وہ اور کہیں نہ آیا۔ میں نے بہت پہلے کہیں لکھا تھا کہ بظاہر تو وہ تسلیم یا دعویٰ نہیں کرتے لیکن ان کی حرکات و سکنات سے لگتا ہے کہ مجیب الرحمن شامی‘ میاں یٰسین خان وٹو اور چودھری اعتزاز احسن ضرور شاعر ہیں جبکہ اعتزاز تو بعد میں ظاہر بھی ہوگئے۔ میاں یٰسین وٹو نے دیپالپور میں لاتعداد مشاعرے کروائے بلکہ ان کی صدارت بھی کی جبکہ شامی صاحب شہر کی تقریباً ہر ادبی تقریب میں موجود ہوتے ہیں۔
اتفاق ایسا رہا کہ زیادہ تر گفتگو بابائے قوم اور مادرِ ملت کے حوالے سے چلتی رہی۔ شامی صاحب نے ایک عجیب واقعہ سنایا کہ مادرِ ملت کا جنازہ چار مختلف العقیدہ علمائے کرام نے اکٹھے کیسے پڑھایا۔ امجد اسلام کہہ رہے تھے کہ بابائے قوم اور مادرِ ملت کی جو تصاویر ہم تک پہنچی ہیں‘ ان میں وہ بہت سنجیدہ بلکہ ناراض ناراض نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ایک صاحب کے بارے میں بتایا کہ انہیں ان دونوں ہستیوں کی تصاویر اکٹھی کرنے کا شوق تھا‘ چنانچہ ان کے پاس دونوں کی ایسی تصاویر بھی موجود ہیں جن میں یہ دونوں باقاعدہ ہنس رہے تھے۔ امجد کے موبائل میں ایسی متعدد تصاویر تھیں جن میں دونوں ہنس رہے تھے اور ان کے دانت صاف نظر آ رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ کسی طرح ایسی تصاویر اکٹھی کرکے شائع کرنی چاہئیں تاکہ قوم کو معلوم ہو کہ یہ دونوں خوش بھی ہوا کرتے تھے اور ہنستے بھی تھے۔ شامی صاحب نے بتایا کہ جب مادرِ ملت ایوب خان کے مقابلے میں الیکشن ہار گئیں تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ دھاندلی زدہ الیکشن تھے‘ ہم انہیں نہیں مانتے اور ایک متوازی حکومت قائم کرکے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرتے ہیں لیکن نوابزادہ نصراللہ خان اور دیگران پہلو تہی کر گئے اور بعد میں پوچھنے پر بتایا کہ اگر ایسا کر گزرتے تو مادرِ ملت کو تو کسی نے کچھ نہیں کہنا تھا‘ ہم دس دس سال کے لیے ضرور اندر ہو جاتے۔
مادرِ ملت ہی کے حوالے سے شامی صاحب بتا رہے تھے کہ جب لیاقت علی خان نے رعنا سے شادی کرلی اور وزیراعظم بنے تو رعنا کو بھی اپنی کابینہ میں رکھ لیا‘ جس پر مادرِ ملت نے کہا کہ سیاست میں داخل ہونے کا یہ کیا خوبصورت طریقہ ہے! یہ بھی بتایا کہ مادرِ ملت قائداعظمؒ ہی کی طرح کی دبنگ شخصیت تھیں اور سبھی ان سے دب کر رہتے تھے۔ ایک دفعہ جب سفر کے دوران ان کی گاڑی ساہیوال ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر رکی‘ جو ملک کا سب سے طویل پلیٹ فارم ہے‘ اور ان کی آمد کی اطلاع چونکہ پہلے سے تھی تو پلیٹ فارم پر لوگوں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہوگیا اور شور وغوغا میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ انتظامیہ کے لوگوں کی بسیار کوشش کے باوجود شور تھمنے کا نام نہ لے رہا تھا کہ مادرِ ملت نے جو ٹرین کے دروازے میں کھڑی تھیں‘ وہاں پر موجود ایک پولیس افسر سے اس کی چھڑی لے لی اور اسے لہراتے ہوئے کہا‘ خاموش! تو اسی لمحے ایسی خاموشی طاری ہوگئی کہ سوئی کے گرنے کی آواز بھی سنی جا سکتی تھی۔
ہمارا خاندان‘ جو بنیادی طور پر سیاسی تھا‘ ان دنوں دو دھڑوں میں تقسیم تھا۔ ہمارے ایک عزیز میاں محمد زمان‘ جو اس وقت کونسل لیگ کے سرگرم رکن تھے‘ نے مادرِ ملت کے انتخاب میں بھرپور حصہ لیا۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے اپنے گھر کی پیشانی پر ایک بڑی سی لالٹین لٹکا رکھی تھی‘ جو مادرِ ملت کا انتخابی نشان تھا۔ برطانوی وزیراعظم چرچل کا ذکر آیا تو ان کے مشہور لطیفے بھی دہرائے گئے۔ امجد اسلام نے سنایا کہ ایک بار ان کی 94ویں سالگرہ کی تقریب جاری تھی کہ ایک نوجوان فوٹو گرافر نے کہا‘ ''مسٹر چرچل‘ امید ہے کہ ہم آپ کی 100 ویں سالگرہ بھی منائیں گے‘‘ اس پر چرچل نے اس کی جانب بغور دیکھتے ہوئے جواب دیا:
''ہاں۔ بظاہر تو تمہاری صحت ٹھیک ٹھاک لگتی ہے!‘‘
میرے حصے کا لطیفہ یہ تھا کہ پارلیمنٹ میں ایک خاتون ان پر شدید تنقید کیا کرتی تھیں۔ ایک بار وہ بولیں‘ ''مسٹر چرچل‘ اگر میں آپ کی بیوی ہوتی تو آپ کو زہر دے دیتی!‘‘ چرچل نے جواب دیا۔''محترمہ اگر میں آپ کا خاوند ہوتا تو میں نے خود ہی زہر کھا لینا تھا!‘‘
یہ واقعہ تو بہت مشہور ہوا اور اس کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ جنگ عظیم دوم میں نازی افواج نے بمباری کر کے لندن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ کچھ دنوں بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے بتایا کہ بہت تباہی ہوئی ہے‘ جس پر چرچل نے پوچھا۔''ہماری عدالتیں کیا ٹھیک کام کر رہی ہیں؟‘‘ اس کا جواب اثبات میں ملا تو چرچل بولے۔''پھر یوں سمجھیے کہ کچھ بھی نہیں ہوا!‘‘
امجد اسلام امجد اور ایوب خاور سے میں نے کہا کہ اب آپ کا ایک ایک مزید مجموعہ بھی واجب ہو چکا ہے تو دونوں نے بتایا کہ دسمبر تک یہ کام ہو جائے گا۔ ڈاکٹر ابرار کے تیور بھی کچھ اسی قسم کے تھے۔ اس محفل میں ہمیں جو مزہ آیا اس کا ذائقہ تا دیر محسوس ہوتا رہے گا۔
آج کا مقطع
ڈھاتے کہ بناتے کہیں یہ کہنہ عمارت
فارغ ہیں‘ ظفرؔ جذبۂ تعمیر ہی نشتے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں