رفعت ناہید کے اکلوتے مجموعہ کلام''دیر سویر‘‘ سے کچھ نظمیں میں نے آپ کی تفنن طبع کے لیے پیش کی تھیں‘ اب اس کتاب میں سے اس کے غزلیہ اشعار کے کچھ نمونے حاضر ہیں ۔ اس کی شاعری کے حوالے سے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہو گا کہ اسے یہ کام جاری رکھنا چاہیے کیونکہ اس کے اندر جو پوٹینشل موجود ہے وہ نکھر کر سامنے آ سکے‘ اور جو دھیما پن اس کے ہاں پایا جاتا ہے‘ اس کی اگلی منزل کی خبر بھی آ سکے۔ ایک معمولی اور عام سی بات کو شعر بنا دینا اس کی ایک ایسی خوبی ہے جس کی بناپر اس سے کچھ حقیقی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔
گو کہ ہر بار داستان میں ہوں
پھر بھی ناقابل بیان میں ہوں
پوری پڑھ لو تو مجھ کو بتلائو
کہ میں اک اور بھی زبان میں ہوں
تم کسی اور سائے جا بیٹھو
میں کسی اور سائبان میں ہوں
ہوا کے ہاتھ پر سوچے گئے تھے
ہوا کے سامنے لکھے ہوئے ہیں
لپٹی ہوئی تھی شاخ سے اک بیل یاد کی
آہٹ ہوئی تو خود ہی دریچے سے ہٹ گئی
ہم جہاں ساتھ ساتھ چلتے تھے
وہ زمین آسمان تھی پوری
کبھی غازہ کبھی کاجل کبھی بالوں میں گلاب
تم ہی آتے نہیں‘ تدبیر تو سب ہوتی ہے
گھر کے آنگن میں دو پیڑ اک ساتھ تھے
ایک تھا چھائوں میں دوسرا دھوپ میں
تھوڑا سا چاند اور ستارے اتار کر
کچھ دھوپ بھی ملائی‘ اندھیرا الگ کیا
کیا سہولت سے مرے دل میں قدم رکھا تھا
بھولتی ہی نہیں کچھ روز جو مہمانی تھی
اور اب اس کے کچھ تازہ اشعار:
نصیب دشمناں رکھا ہوا تھا
تمہارا دل یہاں رکھا ہوا تھا
کسی کے واسطے تم رکھ گئے تھے
مری خاطر کہاں رکھا ہوا تھا
اگر تم دو قدم تکلیف کرتے
زمیں پر آسماں رکھا ہوا تھا
خواب سارے ہی بن چکی تھی میں
آرزوئوں پہ کام رہتا تھا
ایک چھائوں سی آتی جاتی تھی
ایک سایا مدام رہتا تھا
گلی اُسی کی ہے‘ جانتی ہوں
وہ تب ملا تھا نہ اب ملے گا
کون آتا ہے آج رستے میں
پھول بارِ دگر زیادہ ہیں
روشنی تو دیئے کی کچھ کم ہے
سائے دیوار پر زیادہ ہیں
شہر میں آ کے چلے جائو تمہارا کیا ہے
جو منافع نہیں ملنے میں‘ خسارہ کیا ہے
اُٹھ کے بے سمت چلی جاتی ہوں دیکھا کب ہے
راستہ کون سی جانب ہے اشارہ کیا ہے
اجنبی تھا تو نہیں جس نے سنبھالا تھا مجھے
نام کچھ اور تھا پر میں نے پکارا کیا ہے
میں نے تم کو چاند ستارہ لکھا تھا
لیکن پھر خط کو دوبارہ لکھا تھا
پہلے پیڑ پہ نقش بنایا تھا دل کا
پھر اُس دل میں نام تمہارا لکھا تھا
افسانہ جو آدھا تمہیں سنایا تھا
بعد میں بیٹھ کے کتنا سارا لکھا تھا
اور‘ اب خانہ پُری کے لیے اپنی یہ تازہ غزل:
حالت جو ہو چکی ہے یہاں کی،بتا کے لائو
وہ خود تو آئے گا نہیں‘ اس کو اُٹھا کے لائو
خلقت کو اب تو سانس بھی لینا محال ہے
جائو کہیں سے بھی کوئی جھونکے ہوا کے لائو
اپنے ہی لوگ تھے جو پہاڑوں پہ چڑھ گئے
وہ روٹھ کر گئے ہیں تو ان کو منا کے لائو
جنگل میں مور ناچ رہا ہے اُسی طرح
جلدی سے کوئی دیکھنے والا بھی جا کے لائو
جو کچھ بھی اُس کے بعد ہوا ہے ہمارے ساتھ
ساری کہانیاں اسے جا کر سنا کے لائو
رسوائی ہی ملی ہے محبّت معاوضہ
سب نے یہی کہا تھا کہیں سے کما کے لائو
کب سے مریض دل ہوں دعا ہے نہ کچھ دوا
لے جائو اور مجھے بھی کسی کو دکھا کے لائو
آنے لگا تو آیا کرے گا وہ آپ ہی
فی الحال تو اسے یہاں کچھ دے دلاکے لائو
آباد پھر سے ہونے کو ہے شہر‘ اے ظفر
جو چھوڑ کر چلے گئے ان کو بُلا کے لائو
آج کا مقطع
ناممکنات میں سے ہے وصل اس کا اے ظفرؔ
حیران ہوں کہ آپ نے بھی کیا سمجھ لیا