دہشت گردی کے خلاف خرچ ہونے والے اربوں روپے تعلیم پر خرچ ہوں تو انقلاب آ جائے: خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''دہشت گردی اور آپریشنز پر خرچ ہونے والے اربوں روپے تعلیم پر خرچ کیے جائیں تو انقلاب آ جائے‘‘ جبکہ دہشت گردی ختم کرنے کے لیے بھی روپیہ حکومت کو اپنے پلے سے خرچ کرنا چاہیے نہ کہ ہمارے جاں نثاروں کا گلا گھونٹ کر یہ روپیہ ان سے نکلوایا جائے اور اگر دہشت گردی پر روپیہ خرچ نہ بھی کیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ یہ حضرات ملک پر قابض ہو جائیں گے جس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ملک تو کہیں نہیں جائے گا اور وہیں کا وہیں موجود رہے گا اور تعلیم کی ساری کمی بھی وہ خود پوری کر دیں گے کہ ہر مدرسہ ایک یونیورسٹی کی حیثیت اختیار کر لے گا اور علم کی روشنیاں ہر طرف پھیل جائیں گی جبکہ کچھ شرفاء کی زندگیوں پر اندھیرا چھا جائے گا جو کہ سخت ناانصافی ہوگی کیونکہ کسی کی محنت پر پانی پھیر دینا ویسے بھی نہایت نامناسب بات ہے۔ آپ اگلے روز پنوں عاقل کیڈٹ کالج کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے جنگی
بنیادوں پر کام کر رہے ہیں: شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں‘‘ اور چونکہ ضرب عضب کی وجہ سے ملک پہلے ہی حالتِ جنگ میں ہے‘ اس لیے ہمارے ہر کام کا جنگی بنیادوں پر ہی ہونا تصور کرنا چاہیے البتہ اگر طالبان سے مذاکرات جاری رہنے دیئے جاتے تو ہم سارا کام اب تک امن کی بنیادوں پر کر رہے ہوتے اور بھائی جان اس وقت ڈپٹی امیرالمومنین ہوتے‘ اگرچہ ان کا پرانا خواب تو امیرالمومنین ہی بننے کا تھا جو پچھلی بار دیکھا تھا لیکن پرویزمشرف کم بخت نے سارا کام ہی خراب کردیا اور مستقبل کے امیرالمومنین کو جیل میں ڈالنے کا گناہ عظیم سرانجام دے ڈالا؛ چنانچہ بھائی صاحب بھی اب ان کی حتی الامکان خدمت کر رہے ہیں اگرچہ وہ کسی منطقی انجام تک پہنچنے والی نہیں کیونکہ کچھ قوتیں جو انہیں ٹھیک سے حکومت کرنے نہیں دے رہیں اور ان کی جگہ اقتدار میں آنا چاہتی ہیں‘ اس سارے نیک عمل میں مزاحم ہیں‘ آخر اس ملک کا کیا بنے گا؟ آپ اگلے روز لاہور میں ارکانِ اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں سے ملاقات کر رہے تھے۔
نندی پور اور قائداعظم سولر پارک حکومت
پر بوجھ بن گئے ہیں: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''نندی پور اور قائداعظم سولر پارک حکومت پر بوجھ بن گئے ہیں‘‘ جسے ہم ہٹانا چاہتے ہیں کیونکہ اندرخانے مفاہمت کی لہر اب تک چل رہی ہے تاکہ ہم پر مقدمات کا بوجھ کچھ کم ہو سکے‘ لیکن ہماری تو اپنی بری حالت ہے کیونکہ اپنی سادگی اور معصومیت کی وجہ سے والد صاحب نے تو پارٹی کا خانہ ہی خراب کر دیا ہے حالانکہ وہ صرف خدا ترسی کے طور پر جملہ انکلوں کو موقع دے رہے تھے کہ مستقبل کے لیے کچھ دال دلیا کرلیں‘ جبکہ ان کا اپنا مستقبل بھی ساتھ ساتھ اپنے آپ ہی مزید محفوظ ہونا تھا‘ لیکن فلک کج رفتار کو یہ منظور نہ تھا۔ اگلے روز کراچی میں ان کے ترجمان ان کا بیان پڑھ کر سنا رہے تھے۔
مُفت مشورہ
اوکاڑہ کا ضمنی انتخاب روزبروز مزید دلچسپ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ویسے تو لوگ ہر مقتدر جماعت سے غیر مطمئن رہتے ہیں جبکہ میاں نواز لیگ کی مقامی قیادت سے بھی عوام نالاں ہیں جبکہ عمران خان کی سابقہ دو اڑھائی سال کی جدوجہد نے ان میں کافی حد تک ایک تبدیلی کا رنگ بھی بھر دیا ہے اور موصوف کی روزبروز بڑھتی ہوئی مقبولیت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے اور عوامی رائے کے ترازو کا پلڑا کسی طرف بھی جھک سکتا ہے اور پیپلزپارٹی کے نامزد امیدوار اشرف سوہنا اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے گویا تیار بیٹھے ہیں‘ اگرچہ آزاد امیدوار ریاض الحق کے حق میں ہوا تیزی سے چلتی نظر آتی ہے اور ان کی کامیابی کا معجزہ برپا ہونے کا امکان بظاہر سب سے زیادہ نظر آتا ہے اور ان کا پلڑا سب سے بھاری ہی لگتا ہے۔ ان حالات میں اگر تحریک انصاف میں تھوڑی سی بھی عقل ہو تو اسے چاہیے کہ آزاد امیدوار سے مل جائے جو کامیاب ہو کر تحریک میں شامل ہو جائیں گے۔ بصورت دیگر بھی ان کے امیدوار کے دوسرے نمبر پر آنے کے امکانات بظاہر زیادہ ہیں۔
قصہ ایک شعر کا
ایک عزیز نے میرے شعر؎
ظفر اس کارِ دنیا میں ہماری انتہا یہ ہے
کہ ہم پکڑے گئے ہیں ابتدا ہونے سے پہلے ہی
میں ایک تو لفظ ''اِس‘‘ پر اعتراض کیا ہے اور دوسرے غالب کے اس شعر؎
پنہاں تھا دامِ سخت قریب آشیان کے
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
کو میرے شعر سے بہتر قرار دیا ہے۔ مجھے اپنے شعر کا دفاع مقصود نہیں کیونکہ یہ کام میری شاعری کو خود کرنا چاہیے‘ نہ ہی مجھے غالب کے شعر کو اپنے شعر سے بہتر ہونے پر کوئی اعتراض ہے کیونکہ میں بھی غالب کا اتنا ہی مداح اور نیاز مند ہوں جتنا کہ کوئی اور۔ البتہ غالب کے شعر پر میں اپنے تحفظات کا اظہار کرنا اپنا حق سمجھتا ہوں:
سب سے پہلے تو میرے نزدیک ''دامِ سخت‘‘ کی ترکیب قابل توجہ ہے جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کوئی دام نرم بھی ہوتا ہے جبکہ دام تو دام ہی ہوتا ہے‘ اس کے نرم یا سخت ہونے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے۔ دوسرا لفظ ''آشیان‘‘ ہے جس کے حوالے سے اتنا ہی عرض کروں گا کہ اساتذہ کے ہاں بھی اس کی جگہ آشیاں اور آشیانہ ہی استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ مصرعہ اگر میں لکھتا تو اس طرح لکھتا ؎
پنہاں تھا کوئی دام قریب آشیانے کے
اب آتے ہیں اُڑنے سے پیشتر گرفتار ہونے پر‘ دام ہمیشہ ہی زمین پر بچھا ہوتا ہے جس پر دانے وغیرہ بکھرائے جاتے ہیں تاکہ پرندے اپنا پیٹ وہاں سے بھریں اور شکاری اسی دوران دام یا جال کی رسی کھینچ دے اور پرندے اس میں پھنس جائیں۔ اب یہاں غالب یعنی پرندہ تو درخت پر اور آشیانے کے اندر تھا تو وہ اُڑنے سے پہلے ہی دام میں پھنس کر گرفتار کیسے ہوگیا۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ پرندے نے آشیانے سے اُڑ کر نیچے ڈبکی لگائی ہو اور جال پر جا بیٹھا ہو اور شکاری نے رسی کھینچ کر اُسے گرفتار کرلیا ہو‘ لیکن شعر کے مطابق تو پرندہ اُڑنے سے پہلے ہی گرفتار ہو جاتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ دامِ سخت نیچے زمین پر ہونے کی بجائے درخت کے چاروں جانب پھیلا دیا گیا ہو جس میں چھلانگ لگا کر پرندہ پھنس گیا ہو۔ لیکن یہاں بھی اس کا اُڑنا ضروری ہو جاتا ہے۔ نیز یہ کہ زمین پر بچھا ہوا جال ہم رنگِ زمیں ہوتا ہے‘ اس لیے وہ نظر نہیں آتا اور پرندے اس سے دھوکاکھا جاتے ہیں اور اگر جال کا درخت کے چاروں طرف پھیلا ہونا تسلیم بھی کر لیا جائے تو وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو سکتا؛ تاہم اگر ہو بھی تو اس کے لیے بھی پرندے کا چھوٹی ہی سہی‘ اُڑان بھرنا تو ضروری ہے‘ اس لیے اُڑنے سے پیشتر ہی دام میں گرفتار ہو جانا ایک قول محال ہے اور جو قاری کو قائل نہیں کرتا؛ تاہم میں غلط بھی ہو سکتا ہوں!
آج کا مقطع
جانے کیا سوجھی کہ اٹھ کر چل دیئے یونہی‘ ظفر
رہ گیا گھر میں ہی سامانِ سفر باندھا ہوا