"ZIC" (space) message & send to 7575

اوکاڑہ :پنجاب کا سیاسی عدم وجود

اوکاڑہ''پنجاب کا سیاسی عدم وجود‘‘ کے عنوان سے ''ڈان‘‘ 14 اکتوبر کے صفحہ اول پر جناب محمد حنیف کی سٹوری شائع ہوئی ہے۔ وہ صحیح معنوں میں ایک چشم کشا رپورٹ ہونے کے ساتھ اپنے حسنِ بیان کی وجہ سے بھی ایک یادگار تحریر ہے اور جس کی ایک خاص وجہ ہے کہ اس کے خالق بین الاقوامی شہرت کے مالک اور یادگار انگریزی ناول ''دی کیس آف ایکسپلوڈڈ مینگور‘‘ کے مصنف ہیں اور جو بیرون ملک دھومیں مچانے کے بعد کراچی میں سیٹل ہو گئے ہیں اور عارضی طور پر یعنی ضمنی الیکشن کا رونق میلہ دیکھنے کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ اگر وہ پسند کریں تو اس الیکشن پر بھی ایک اتنا ہی اہم اور مزیدار ناول لکھ سکتے ہیں۔
اوکاڑہ کی مختصر سیاسی تاریخ بیان کرنے کے بعد اوکاڑہ ہی کے ایک پرانے سیاسی کارکن یہ مقولہ انہوں نے درج کیا ہے جس کے مطابق اوکاڑہ پنجاب کا کوڈ ہے کہ یہاں کے لوگ آپ کو بادشاہ بنا سکتے ہیں لیکن اگر آپ انہیں اپنی جیب کا سکہ سمجھ لیں تو وہ آپ کو ایک المناک انجام سے بھی دوچار کر سکتے ہیں۔ یہ اوکاڑہ کبھی بھٹو کا ہوا کرتا تھا۔ یہاں ایک مختصر ٹریڈ یونین تحریک موجود تھی اور چھوٹے کسانوں کو بھٹو کی زرعی اصلاحات سے کوئی خوف نہ تھا۔ بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا تو دو شہریوں نے خود سوزی کر لی تھی۔ پھر یہ شہر وسطی پنجاب کی طرف شریفوں کے پاس چلا گیا۔ یہ پنجاب کا لاڑکانہ تھا۔ اور پھر یہ نواز شریف کا دوسرا لاہور تھا۔ اور اب یہ پنجاب کا ''سیاسی عدم وجود‘‘ ہے جہاں آپ کو الیکشن لڑنے کے لئے سیاست کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی سیاسی جماعتوں کی۔ یہاں ایک نسبتاً گم نام آدمی چند ہفتوں کی کنویسنگ کے بعد اور نوٹوں کی بھری ہوئی بوریوں کے ساتھ سیاسی طاقت کو ہتھیا سکتا ہے۔ جج نے جب الیکشن سے چند ہفتے پہلے کنویسنگ شروع کی تولوگ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ یہ شخص کون ہے؟ یہ نعمت بناسپتی والوں کا نوجوان تھا۔ لوگ اس فیملی کو اچھی طرح سے جانتے تھے جو سرمایہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ پرکار بھی تھی۔ آغاز ہی میں ن لیگ کے نامزد امیدوار نے کہا کہ وہ یہاں کوئی نئی دکان نہیں کھلنے دے گا۔ چنانچہ یہ اس طرح وقوع پذیر ہوا کہ بناسپتی فیملی نے کریانے کی ایک دکان کھول کر اپنی امارت کا آغاز کر دیا۔ ہر کسی کو وہ چھوٹی سی دکان یاد ہے۔ اوسط درجے کے ایک قومی اسمبلی کے امیدوار کو الیکشن لڑنے کے لئے دو کروڑ روپے درکار ہوتے ہیں۔ اس فیملی اور اس کے بہی خواہوں نے اس مقصد کے لئے ساڑھے نو کروڑ روپے جمع کر لیے۔ جب جج اور اس کے ساتھی کنویسنگ کے لئے نکلتے ان کی جیپوں میں نوٹوں سے بھری ہوئی بوریاں ہوا کرتیں۔ اور اگر واپسی پر ان کے پاس کچھ بچ رہتا تو خاندان کے بڑوں کی طرف سے ان کی سرزنش کی جاتی۔ اس فیملی کی کارگزاری مختصراً یہ ہے کہ ان کے پاس ایک گھی مل اور ایک کارڈ بورڈ فیکٹری ہے۔ ان کی اصل کمائی چینی سے ہے جو یہ اردگرد کی شوگر ملوں سے پیشگی ادائیگی پر خرید لیتے ہیں۔ یہ بلیک مارکیٹ سرمایہ کاری کے لئے ایک معتبر نام ہے۔ یہ بہت بڑے خیرات کار بھی ہیں اور یہ کام نہایت ہنر مندی سے کیا جاتا ہے۔ ہر رمضان کو ان کے منیجر غریب آبادیوں کی کریانہ شاپس پر جاتے ہیں اور بہت غریب لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ پھر ایک مہینے کا راشن ہر گھر میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ آپ ایک گھرانے کو ایک مہینے کا راشن دے کر خرید لیتے ہیں اور ان کے، اور ان کے لواحقین کے ووٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ اور ہر سال ایک مہینے میں آپ ایک فیملی خرید لیتے ہیں۔ 
یہ اس رپورٹ کے چیدہ چیدہ حصوں کا ترجمہ ہے جو اپنے استحقاق 
میں ایک ادب پارہ بھی ہے۔ جو اردو خواں طبقے اس تحریر سے استفادہ نہیں کر سکے، یہ سطور محض ان کی ضیافت طبع کے لیے پیش کی گئی ہیں اور اگر ان میں کوئی قابل گرفت بات ہو بھی تو نقلِ کفر کفر نباشد کے مصداق عفوو درگزر سے کام لینا ہو گا۔ اور اگر اس میں کوئی بات نادرست بھی ہے تو دروغ پر گردنِ راوی۔
خیرات اور غریبوں کی مدد بجائے خود اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ صرف وہ خیرات جو اللہ کو خوش کرنے کے لیے کی جائے جبکہ وہ ایک اور طرح کی خیرات ہے جس کا اصل مقصد سیاسی مفاد حاصل کرنا ہو اور جسے خیرات کے زمرے میں نہیں لایا جا سکتا کیونکہ یہ تو اللہ کو دھوکہ دینے والی بات ہوئی کہ بظاہر آپ اسے راضی کرنے کے لیے یہ کام کر رہے ہوں اور اصل میں اپنے سیاسی مقاصد کی آبیاری کر رہے ہوں۔ یہاں پی ٹی آئی کے امیدوار عبدالعلیم خان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی الیکشن میں روپیہ پانی کی طرح بہایا ہے جس میں ووٹروں کو موٹر سائیکلیں بطور تحفہ دینا بھی شامل ہے۔ لیکن دونوں میں فرق واضح ہے کہ ایک طرف محض لوگوں کا ووٹ خریدنے کے لیے سرمایہ کاری کی گئی۔ اللہ تعالیٰ دونوں کی خطائیں معاف کرے۔
اب دلچسپ سوال یہ بھی ہے کہ ریاض الحق جج کس جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی والے اپنا زور لگا رہے ہیں اور اس سلسلے میں ایک تو پی ٹی آئی کے ایک معتبر لیڈر چوہدری سرور نے موصوف سے اوکاڑہ جا کر ملاقات کی ہے اور پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے اور عمران خان نے انہیں الگ فون کیا ہے جبکہ میاں نواز شریف نے بھی انہیں فون کیا ہے۔ اگلے روز ایک ٹی وی شو میں ان سے اس بارے پوچھا گیا تو ان کا سیاسی جواب یہی تھا کہ اپنے اہل خاندان، دوستوں اور ووٹروں سے مشورے کے بعد کوئی فیصلہ کریں گے، تا ہم جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کا ذاتی رجحان کس طرف ہے تو کہا کہ وہ مسلم لیگ کا پرانا کارکن ہے اس لیے ان کی اپنی چوائس تو یہی ہو گی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ابھی گومگو ہی میں رہیں گے اور کسی جماعت میں شامل نہیں ہوں گے کیونکہ بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں اور وہ ان کے انعقاد سے پہلے ایکسپوز ہو کر اپنے ساتھیوں کے درمیان کوئی تفرقہ نہیں ڈالنا چاہتے جو ان کی مقبولیت پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے، اور اس دوران وہ اپنا بھائو بھی بڑھا سکتے ہیں!
سیاسی کارکن مستقبل بین ہوتا ہے اور اگر نہیں ہوتا تو اسے ہونا چاہیے، چنانچہ اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ مستقبل عمران خان کا ہے جبکہ نواز لیگ کے پاس ایک داغدار ماضی اور ایک ناقابل بیان حال ہے۔ عمران نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے جن کے دہرائے جانے کا بظاہر کوئی ایسا خطرہ نہیں ہے۔ وہ نیا آدمی ہے اور لوگ اسے چانس دینا چاہتے ہیں کہ ایک بار اس کو بھی آزما لیا جائے جبکہ پی پی پی اور ن لیگ کو بارہا آزمایا جا چکا ہے اور اس کی حالیہ اور موجودہ پالیسیاں بھی خوفناک حد تک مخدوش اور مشکوک ہیں اور مستقبل میں بھی ان سے کسی معقولیت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ہم کوئی عمران خان کے ترجمان نہیں ہیں اور اگر وہ کبھی برسر اقتدار آتا بھی ہے تو اس کے سب سے بڑے ناقد بھی ہم ہی ہوں گے۔ ریاض الحق بہر حال اپنی مرضی کے مالک ہیں اور وہی فیصلہ کریں گے جو وہ اپنے لیے مناسب سمجھیں گے کیونکہ یہ کوئی سیاسی فیصلہ نہیں ہو گا اور اتنا ہی غیر سیاسی ہو گا جتنا غیر سیاسی ان کا الیکشن اور کامیابی تھی۔ تا ہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بقول ہمارے عزیز محمد حنیف کے، شہر میں ایک نئی دکان کھل گئی ہے کہ اس دکانداری کے بیج بھی خود شریف برادران ہی کے بوئے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں سیاست مفقود ہوتی جا رہی ہے!
آج کا مقطع
ظفرؔ تعمیر اپنی میں بھی ایک آدھ اینٹ لگواتے
وہ جن کی عمر گزری ہے مجھے مسمار کرنے میں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں