کہتے ہیں کہ جب چیونٹے کی شامت‘ یا موت آتی ہے تو اُس کے پر نکل آتے ہیں۔ میں شامت یا موت سے نہیں گھبراتا‘ نہ ہی مجھے پروں کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ میں تو اکثر بے پر ہی کی اُڑاتا ہوں۔ تفصیل اس اِجمال کی یوں سمجھیے کہ اسلام آباد سے کشور ناہید کی تازہ شاعری موصول ہوئی ہے۔ اگرچہ اس کے بارے میں اُس کا جنرل آرڈر تو یہ ہے کہ اسے اخبار میں نہ چھاپا جائے لیکن اس دفعہ اس کے ہمراہ حکم امتناعی قسم کی کوئی چیز نہیں ہے‘ اس لیے یہی سوچا کہ اسے عذر بنا کر یہ خطرہ مول لیا جا سکتا ہے۔ پہلے خیال آیا کہ فون کرکے اس سے اجازت لے لی جائے‘ لیکن یہ تو آبیل مجھے مار والی ہی بات ہوتی‘ اس لیے ہرچہ بادا باد کہتے ہوئے اوکھلی میں سر دے رہا ہوں۔ دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ تو ہے ہی‘ لیکن آخر توکل بھی کوئی چیز ہے‘ اس لیے پو بارہ ہوں یا تین کانے‘ عشق آتشِ نمرود میں کود رہا ہے‘ میرے حق میں دعائے خیر کیجئے گا‘ ڈاکٹر شمیم حنفی سمیت۔
کرمکِ شب تاب
وہ جو خود کو کوہکن کی طرح سمجھتا ہے
دروازے پہ دستک ہوتی ہے
تو چھُپ جاتا ہے
سامنے کھلکھلاتی نواسیاں
کمرے میں داخل ہوتی ہیں
میں اُن کے سامنے چاکلیٹ کا ڈبہ رکھ دیتی ہوں
وہ پوچھتی ہیں نانو کہاں ہیں
میں آواز دیتی ہوں
جواب نہیں آتا
بچیاں اپنے سوال کو بھول کر
ٹیبلٹ فون کھول کر
اپنی سہیلیوں سے باتیں کرتے کرتے
سو جاتی ہیں
میں کوہکن کو ڈھونڈنے
دوسرے بیڈ روم کی طرف جاتی ہوں
خراٹوں کی آواز سن کر پلٹ آتی ہوں
رات گزر جاتی ہے!
٭
اُجلی شام میں لپٹا وعدہ تازہ میرے اندر تھا
باہر کیسے جاتی میں‘ دروازہ میرے اندر تھا
شام کو صبح میں‘ صبح کو شام میں خود ہی میں نے بدل دیا
ہر نخچیر کا کھویا ہر خمیازہ میرے اندر تھا
حرف تراشے تھے میں نے اور تم نے خرید لیے تھے
صدیوں تک پھیلا جیسے شیرازہ میرے اندر تھا
قفل محبت مجھ سے کیا کھلتا ‘ تم سے بھی تو کھلا نہیں
یوں تو شیشہ ٔجاں کا ہر اندازہ میرے اندر تھا
آنکھیں دشت کی صورت ہوئی ہیں جب سے رستے جدا ہوئے
ویسے گنبدِ شوق کا ہر آوازہ میرے اندر تھا
بھول نہیں سکتی وہ ساعت‘ وہ منظر کسی عالم میں
شام شفق تھی اور بکھرتا غازہ میرے اندر تھا
ساری بستی سوگوار تھی جب لفظوں کی موت ہوئی
گور پڑا تھا کوئی اور‘ جنازہ میرے اندر تھا
٭
میں سر کشیدہ رہی‘ عمر بھر سجھاتے رہے
وہ لوگ جو مرے دستے میں آتے جاتے رہے
میں آبجو تھی‘ سمندر نہ بن سکی اور لوگ
قیاس کرتے رہے‘ داستاں بناتے رہے
کوئی نہ تھا مرا خورشید جو بُجھا سکتا
مرے قریب جو آئے جھُلس کے جاتے رہے
مصاجت تھی‘ رفاقت تھی‘ سب ہیولے تھے
یہ سانحے مری دہلیز کو سجاتے رہے
مرے عدو مجھے تقسیم کر سکے نہ کبھی
جو احتیاط کے رستے مجھے سکھاتے رہے
ہوا نے کاٹ دی تحریر میرے اشکوں کی
یہ داغ دل میں نیا آشیاں بناتے رہے
ہجومِ دل زدگاں میرے ساتھ چلتا رہا
ہوا کے ہاتھ بھی تصویرِ جاں بناتے رہے
آج کا مقطع
جسے ہر دم اچھالتا ہوں‘ ظفرؔ
ایک اٹھنی ہے وہ بھی کھوٹی ہے