پاکستان کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ
کا ممبر بنایا جائے: نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''پاکستان کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل کیا جائے‘‘ اور اوباما صاحب اس پر تیار بھی تھے کیونکہ میں بھی ان کا مطالبہ ماننے کے لیے تیار ہوگیا تھا کہ آخر بڑے بموں اور میزائلوں کی موجودگی میں چھوٹے چھوٹے بم کیوں بنائے جائیں لیکن چونکہ واپسی پر میرے لیے رہائش کا مسئلہ پیدا ہو سکتا تھا‘ اس لیے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی بلکہ میں تو دھماکہ کرنے کو بھی تیار نہیں تھا‘ بلکہ یہ ہماری کارستانی فوج ہی کی تھی اور امریکہ سے مجھے دردناک قسم کے فون بھی آ رہے تھے جبکہ ان کا رویہ بے حد مشفقانہ تھا اور اسی رو میں جان کیری صاحب نے پچھلی بار مجھے مسٹر نواز کہہ کر بھی مخاطب کیا اور میں نے اس کا ہرگز برا نہیں ما نا کیونکہ وہ عمر میں مجھے سے بڑے ہیں اور بڑوں کا ادب لحاظ کرنا ہماری روایات میں شامل ہے بلکہ وہ تو مجھے ڈانٹ بھی سکتے تھے؛ تاہم اگر انہوں نے مجھے مسٹر نواز کہا تو بعد میں ہزایکسی لینسی کہہ کر حساب برابر بھی تو کردیا تھا جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صدر ایوب نے ایک امریکی صدر کے گال تھپتھپا دیے تھے تو یہ کوئی اچھی بات نہیں؛ البتہ امریکہ اگر ہمارے صدر یا وزیراعظم کے گال یا پیٹھ تھپتھپا دے تو بات سمجھ میں آتی ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم کا دورہ مجموعی طور پر کامیاب رہا‘ ہماری زیادہ تشویش بھارت سے متعلق تھی: سرتاج عزیز
مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کا دورہ مجموعی طور پر کامیاب رہا‘ ہماری زیادہ تشویش بھارت سے متعلق تھی‘‘ کیونکہ اس مجموعی کامیابی میں امریکی صدر کا اپنی والدہ کی تصاویر پر مشتمل البم قبول کرنا بھی شامل تھا جبکہ بھارت کے متعلق تشویش کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ جہاں رہیں‘ خوش رہیں؛ چنانچہ ہم خوشی خوشی واپس آگئے بلکہ وزیراعظم صاحب کا تو واپس آنے کو جی ہی نہیں چاہتا تھا؛ تاہم میرے اصرار پر واپس آنے کے لیے رضامند ہوئے کہ آخر یہاں معاملات کا دھیان رکھنے والا کون ہے اور بات ان کی سمجھ میں آ گئی کیونکہ بات ان کی سمجھ میں ہمیشہ ہی بہت جلد آ جاتی ہے‘ بشرطیکہ انہوں نے ابھی کھانا نہ کھایا ہو کیونکہ ماشاء اللہ ان کا کھانا ہی ایسا ہوتا ہے کہ دنیا و مافیہا سے کافی عرصے کے لیے بے پروا کر دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستانی جوہری ہتھیار محفوظ ہیں‘‘ اور امریکی حفاظت میں زیادہ محفوظ ہو سکتے تھے لیکن پھر ہم نے موجودہ حفاظت پر ہی صبر کرلیا جبکہ مجموعی کامیابی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ ملاقات سے پہلے ہی تیار کرلیا گیا تھا۔ آپ اگلے روز واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اتحاد کی جتنی ضرورت آج ہے
پہلے کبھی نہ تھی: شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''اتحاد کی جتنی ضرورت آج ہے‘ پہلے کبھی نہ تھی‘‘ اسی لیے کالعدم تنظیموں پر ہاتھ ہولا رکھا گیا اور مدرسوں کی رجسٹریشن بھی نہیں کروائی گئی کہ خیر ہے‘ یہ کام کبھی پھر بھی ہو سکتا ہے جبکہ مسلمان بھائیوں کو خوامخواہ پریشان بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ دیکھا یہی گیا ہے کہ طالبان اگر ماردھاڑ نہ کریں تو وہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں‘ خدا ہمیں بھی بہتری کی طرف آنے کی توفیق عطا کرے کیونکہ اگر اس نے اتنا کچھ عطا کر رکھا ہے جو سنبھالا ہی نہیں جا رہا تو یہ توفیق بھی دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عام آدمی کے بچوں کا بھی اعلیٰ تعلیم پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ اشرافیہ کے بچوں کا ہے‘‘ اور ہم ان کا یہ حق برابر تسلیم کرتے ہیں؛ البتہ بعض مصروفیات کی وجہ سے اس پر توجہ نہیں دے سکے؛ تاہم وقت نکال کر متعدد دانش سکول ضرور کھول دیے ہیں لیکن وہاں بھی اشرافیہ کے بچے زبردستی داخل ہو جاتے ہیں جو کہ نہایت بری بات ہے اور ہم بری باتوں سے بہت دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں عاشورہ سکیورٹی پلان کے حوالے سے صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
شہریار خان کو بھارت میں
بہت عزت دی گئی: نجم سیٹھی
پاکستان سپرلیگ گورننگ باڈی کے چیئرمین نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ ''شہریار خان کو بھارت میں بہت عزت دی گئی‘‘ اور وہ تو مجھے بھی اتنی ہی عزت دینے کو تیار تھے لیکن میں کنی کترا کر نکل آیا‘ آخر اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ انہوں نے مسز شہریار کو شاپنگ بھی کروائی بلکہ وہ تو کہہ رہے تھے کہ میری طرح اگر وزیراعظم بھی بغیر دعوت کے چلے آتے تو مودی صاحب اُن کی بھی عزت اسی طرح کرتے۔ انہوں نے کہا کہ ''کرکٹ سیریز کے لیے ابھی مکمل ''ناں‘‘ نہیں ہوئی؛ چنانچہ ہمیں مکمل ناں کا شدت سے انتظار کرنا چاہیے کیونکہ جو مزہ انتظار میں ہے وہ وصل میں بھی نہیں جیسا کہ حکمرانوں نے بھی انتخابات میں انتظار کیا اور اب اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں‘ حالانکہ اس میں خاکسار کی صرف دعائیں ہی شامل تھیں اور اگر میں پنکچر لگاتا تو عدالت میں ثابت بھی ہو جاتا‘ ویسے ایسی باتیں عدالت میں ثابت بھی کہاں ہوتی ہیں‘ ورنہ حکومت کے سبھی نیک اعمال اب تک ثابت ہو چکے ہوتے جبکہ وہائٹ کالر نیکیاں تو ایسی ہی ہوتی ہیں کہ ان کے حاضر و ناظر صرف اللہ میاں ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
پرچی پرائم منسٹر
وزیراعظم صاحب جس پرچی کی مدد سے اوباما صاحب کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے‘ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس ملاقات کے لیے کس قدر تیاری کرکے گئے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ وہاں پر عوام میں پرچی یا چٹ پرائم منسٹر کے طور پر مشہور ہو گئے ہیں جبکہ یہاں بھی وہ سارا کام پرچی ہی سے لیتے ہیں اور جس طرف سے جو پرچی ملتی ہے بلکہ جس کام یا منصب کے لیے وہ خود پرچی جاری کرتے ہیں۔ لازمی طور پر اس کی تعمیل ہو جاتی ہے کہ یہ بھی جمہوریت کا ایک حسن ہے کیونکہ اس سے وہ مشورہ کرنے یا سننے کی زحمت سے صاف بچ جاتے ہیں اور سارا کام پورے رسان سے جاری رہتا ہے یعنی وزرائے کرام آپس میں گتھم گتھا رہتے ہیں بلکہ اب تو انہیں ایک پرچی ارسال کی گئی ہے کہ وہ ان حضرات کا ایک قومی دنگل بھی منعقد کروانے کا اہتمام کریں جبکہ کُشتی کے دوران اُنہیں معانقہ کرنے کے مواقع بھی دستیاب ہوتے ہیں جس سے اسلامی اخوت میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے اور ایک بہت بڑا مقصد مفت میں اور ہنسی خوشی حاصل کیا جا سکتا ہے‘ یعنی ایک پنتھ دو کاج۔
آج کا مطلع
توڑ ڈالیں سب حدیں اور مسئلہ حل کردیا
خود بھی سودائی ہوئے‘ اُس کو بھی پاگل کر دیا