سہ ماہی ''لوح‘‘ کا تازہ شمارہ شائع ہو گیا ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ پنجاب سے کوئی ڈھنگ کا پرچہ نکل ہی نہیں رہا۔ ''آثار‘‘،''سمبل‘‘ اور ''تسطیر‘‘ کب کے اللہ کو پیارے ہو چکے۔ ''ادبِ لطیف‘‘ اور ''سویرا‘‘ کبھی کبھار اپنی مرضی سے اشاعت پذیر ہو جاتے ہیں۔ ''الحمرا‘‘ اور ''بیاض‘‘ چھپتے تو باقاعدگی سے ہیں لیکن ابھی اپنا معیار قائم نہیں کر سکے۔ کچھ دیگر پرچے بھی اسی تگ و دو میں ہیں۔ زیرِ نظر رسالہ چھپتا تو راولپنڈی سے ہے لیکن اس کا اعلانِ پرچے میں کہیں موجود نہیں ہے۔ گویا من و سلویٰ کی طرح براہِ راست آسمان سے اترا ہو۔ اس کے مدیر ممتاز احمد شیخ راوین ہیں جبکہ ''راوی‘‘ نے اپنا ایک معیار پہلے سے قائم کر رکھا ہے۔ کوئی ساڑھے چھ سو صفحات پر مشتمل اس جریدے کی قیمت 500 روپے رکھی گئی ہے۔ اس میں جتنا عمدہ کاغذ استعمال کیا گیا ہے اور دیگر نخروں سمیت یہ قیمت ہرگز زیادہ نہیں ہے لیکن اتنا ضخیم پرچہ چھاپنے کا بہر حال کوئی جواز نہیں ہے۔ مدیر کو ہر پرچے کے ساتھ ایک عدد رحل بھی مہیا کرنی چاہیے۔ کوئی دو سو صفحوں کا پرچہ اگر باقاعدگی سے ہر تین مہینے بعد چھاپ لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ قیمت مناسب ہونے کے باوجود یہ عام قاری کی دسترس سے باہر ہے۔ ویسے بھی سال چھ ماہ کے بعد پرچہ آئے تو جو کچھ گزشتہ شمارے میں پڑھا ہو، بھول چکا ہوتا ہے اور پرچہ ایک تحریک بننے سے محروم رہ جاتا ہے۔ اس کے سائز کو حتیٰ الامکان معقول بنانے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک اس کے تخلیق کاروں کا تعلق ہے تو ملکِ عزیز کا شاید ہی کوئی اعلیٰ درجے کا لکھاری ہو جو اس میں جگہ پانے سے محروم رہا ہو جبکہ کئی خواتین و حضرات کی ایک سے زیادہ تخلیقات شامل کی گئی
ہیں۔ غرض، اس جریدے میں وہ سب کچھ اور کثیر مقدار میں موجود ہے جو ایک معیاری رسالے میں ہونا چاہیے اور جن کا فرداً فرداً ذکر اس مختصر کالم میں ویسے بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ کئی دیگر جریدے بھی توجہ کے مستحق ہیں۔ نیز یہ فیصلہ کیا ہے کہ اختصار ہی سے کام لیا جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ رسالے بھگتائے جا سکیں۔ چنانچہ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس میں درج غزلوں میں سے کچھ اشعار آپ کے ساتھ شیئر کر لیے جائیں:
قطار سے نکل کے دوسری طرف
بنا رہا ہے جو قطار، کون ہے
جو حادثے کا ذمہ دار ہے، وہی
یہ پوچھتا ہے ذمہ دار کون ہے
(سلیم کوثر)
رات نجانے کس کونے میں پھینکی تھی مسکان
سیدھی کر کے پہنوں، آنے والے ہیں احباب
اگر شفاف خوشبودار جھیلوں سے پرے رکھے ہوئے ہیں
کسی نے ہم نظر انداز کردہ بھی ہرے رکھے ہوئے ہیں
(حمیدہ شاہین)
وہ برف پوش محبت ادھر نہیں آتی
اور اس پہاڑ کا لاوا ادھر نہیں جاتا
عجب ہے دل بھی، عجب ہے تری محبت بھی
چھلکتا رہتا ہے پر اس سے بھر نہیں جاتا
(سعود عثمانی)
لے گئے جھولیاں بھر بھر کے مجھے شہر کے لوگ
اپنے حصے میں بھی آیا نہ بچایا ہوا میں
رات دن دیکھتا رہتا ہے مجھے عرش نشیں
اک تماشا ہوں سرفرش لگایا ہوا میں
آگ کو روکنے والا نہیں کوئی شہزادؔ
پھیلتا جاتا ہوں ہر سمت جلایا ہوا میں
(قمر رضا شہزاد)
اب کوئی راہ بھی آسان نہیں دیکھنے میں
دیکھتے رہتے ہیں اور دھیان نہیں دیکھنے میں
کتنی ویران نظر آتی ہے تاحدِ نظر
یہی دنیا کہ جو ویران نہیں دیکھنے میں
خالی تنہائی خزانوں سے بھری رہتی ہے
اور یہاں کوئی بھی سامان نہیں دیکھنے میں
ویسے تو ہجر میں اس کو بھی نہیں کوئی ملال
ویسے تو میں بھی پریشاں نہیں دیکھنے میں
اس جگہ بھی کوئی امکان نکل آتا ہے
جس جگہ کوئی بھی امکان نہیں دیکھنے میں
(مقصود وفاؔ)
دیر تک خالی مکاں خالی نہیں چھوڑتے ہیں
آپ تب تھے ہی نہیں آپ کے ہاں رہ گئے ہم
ایک آواز کے دو حصے ہوئے، ٹھیک ہوا
تم وہاں رہ گئے خاموش، یہاں رہ گئے ہم
(شاہین عباس)
قطار میں ہے نہ اپنے شمار میں کوئی
شمار کیا ہو، یہاں بے شمار ایک سے ہیں
(خالد علیم)
برے سہی مگر اتنے برے نہیں ہیں ہم
ہمارے ساتھ سفر کر کے دیکھیے صاحب
مکاں بدلتے ہی سب کچھ بدلنے لگتا ہے
کبھی ادھر کو اُدھر کر کے دیکھیے صاحب
یہ عشق زیست نہیں ہے کہ ایک بار ہی ہو
یہ کام بارِ دگر کر کے دیکھیے صاحب
رُکا ہوا ہے جو عمرِ رواں کی اس جانب
کبھی وہ لمحہ بسر کر کے دیکھیے صاحب
(اختر رضا سلیمی)
کچھ علاقہ نہیں اس دولتِ دنیا سے ہمیں
پھر بھی کہتے ہیں یہ بازار ہمارے لیے ہے
ڈھونڈتا پھرتا ہے دل اب انہی تصویروں کو
جن کا دعویٰ تھا یہ دیوار ہمارے لیے ہے
تم تو لمحوں میں بھلا دو گے کہانی ساری
اور یہ کام بھی دشوار ہمارے لیے ہے
(شمشیرؔ حیدر)
کہا نہ تھا کوئی بروقت فیصلہ کر لیں
یہ رائگانی سبھی تیرے پیش و پس کی ہے
(سجاد بلوچ)
ختم کلام اس پر کہ آپ کی لائبریری اس پرچے کے بغیر صریحاً نا مکمل ہے جو ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ پرچے میں کوئی اشتہار نہیں اور جس کا مطلب ہے کہ ممتاز احمد شیخ اپنی جان پر کھیل کر ہی یہ سارا کچھ کر رہے ہیں! ع
اُنہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
آج کا مطلع
کہیں اپنے لیے محفوظ اشارہ کوئی ہے
زیرِ غور اس کے ابھی کام ہمارا کوئی ہے