اقتصادی راہداری، مغربی روٹ کی جلد تکمیل کا وعدہ پورا کریں گے:نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''اقتصادی راہداری کے مغربی رُوٹ کی جلد تکمیل کا وعدہ پورا کریں گے‘‘ البتہ اس بات کا فیصلہ چینی کمپنیاں کریں گی کہ یہ روٹ کہاں کہاں سے گزرے گا، اس لیے دعا کرنی چاہیے کہ یہ وہیں وہیں سے گزرے جس کا وعدہ ہم نے کر رکھا ہے۔ اگرچہ اس دُعا کے قبول ہونے کا امکان کم ہی ہے کیونکہ اس قوم کے اعمال کچھ اچھے نہیں ہیں حالانکہ ہماری مثال اس کے سامنے ہے جس سے اعمال صالحہ کی ترغیب حاصل کی جا سکتی تھی لیکن ترغیب چھوڑ، یہ قوم تو کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتی اور سارا کچھ ہمیں ہی حاصل کرنا اور اِدھر اُدھر سنبھالنا پڑتا ہے جبکہ اب تو بیرون ملک بینک بھی تنگ آ گئے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کے ملک میں بینک نہیں ہیں؟ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''گھریلو صارفین کو لوڈشیڈنگ میں ریلیف دیں گے‘‘ اور یہ ریلیف کب دیا جا سکتا ہے اس کا صحیح علم بھی اللہ میاں ہی کو ہے کیونکہ ہم اس کے عاجز بندے غیب کا علم نہیں رکھتے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت کر
ملک کو امن کا گہوارہ بنائیں گے: شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت کر ملک کو امن کا گہوارہ بنائیں گے‘‘ اگرچہ یہ جنگ تو فوج لڑ رہی ہے تا ہم، ہمارے ذمے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کاقلع قمع کرنا تھا جس کا ہم نے پختہ عزم کر رکھا ہے اور جو ہماری ترجیحاتِ اول میں شامل ہے جبکہ مدرسوں کو رجسٹر کرنے
کا کام بھی، اللہ نے چاہا تو جلد شروع ہو جائے گا جس میں کافی احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ یہی ہمارا ووٹ بینک ہے اس لیے یہ کام سینے پر پتھر رکھ کر ہی کرنا پڑے گا، دعا کریں کہ اللہ میاں اس کی ہمیں جلد سے جلد توفیق عطا فرمائے جس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ تک نہیں ہل سکتا، اتنے محسنوں کو ہم کیسے ہلا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشتگردی کا خاتمہ 18 کروڑ کی عوام کی آواز ہے‘‘ اور میں یہ آواز اس لیے بھی سننے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آگے چل کر یہ ملک میں نے ہی چلانا ہے، بھائی جان تو اب چوتھی بار وزیر اعظم ہو نہیں سکتے اور یہ بوجھ مجھے ہی اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانا پڑے گا جبکہ میری جگہ عزیزی حمزہ شہباز خدمات سرانجام دیں گے جس کی تربیت وہ تیزی سے حاصل کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں بلوچ طالبات سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت صحت کے مسائل دور کرنے
کے لیے کوشاں ہے: رفیق رجوانہ
گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ نے کہا ہے کہ ''حکومت صحت کے مسائل دور کرنے کے لیے کوشاں ہے‘‘ اور خوشی کی بات ہے کہ اس میں عوام نے بھی بھرپور تعاون شروع کر دیا ہے جس کا ثبوت اس سے بڑا اور کیا ہو سکتا ہے کہ اگلے روز ایک خاتون نے ایک سرکاری ہسپتال میں داخلہ نہ ملنے پر ہسپتال کی سیڑھیوں پر ہی بچی کو جنم دے دیا جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ قوم آہستہ آہستہ اپنے پائوں پر کھڑی ہو رہی ہے کیونکہ خود انحصاری کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا، اور بیماریاں چونکہ دعائوں سے بھی رفع ہو سکتی ہیں، اس لیے عوام کو مہنگے علاج کی بجائے دعائوں پر زور دینا چاہیے جیسا کہ حکومت بھی دعائوں کے سہارے ہی چل رہی ہے بلکہ قوم کو اجتماعی دُعائوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور حکومت کی جان و مال کے حق میں دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی چھوٹی چھوٹی بیماریاں دُور کرنے کے لیے بھی دُعائیں مانگنی چاہئیں اور اگر یہ کام سنجیدگی سے ہوتا رہا تو ہسپتالوں کی یہ بک بک ہمیشہ کے لیے ختم کر دی جائے گی۔ آپ اگلے روز ایچی سن کالج میں ایک تقریب اور کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
زلزلہ زدہ علاقوں کو آفت زدہ قرار
دینا ضروری نہیں: پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''زلزلہ زدہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دینا ضروری نہیں‘‘ کیونکہ ہم بھی تو کسی آفت سے کم نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے ملک ہی کو آفت زدہ قرار دے دیا جائے، نیز اب جبکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان اس خطے میں واقع ہے جہاں گاہے بگاہے زلزلے آتے ہی رہیں گے تو بھی ہم ایسا نہیں کریںگے کیونکہ اگر آئے دن مختلف علاقوں کو آفت زدہ قرار دیتے رہیں تو ہم اپنا اصل کام کس وقت کریں گے جو پہلے ہی اسحٰق ڈار صاحب تک محدود ہو چکا ہے کیونکہ روپے پیسے کا معاملہ ہے اور وزیر اعظم صاحب اور کسی پر کچھ زیادہ اعتماد بھی نہیں کرتے کیونکہ یہ بہت باریک کام ہے جس میں صاحبِ موصوف جیسی مہارت کوئی اور حاصل نہیں کر سکا ہے؛ چنانچہ وزیر اعظم کی ہدایات کے مطابق ہی ہمارا کام ہو رہا ہے کیونکہ بیرون ملک بینکوں کے حوالے سے بھی ہمارا کام اُنہی کے ذمے ہے اور وہ اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ اسے بھی نہایت جانفشانی سے سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
حکومت ثقافتی ورثہ کو ترقیاتی منصوبوں
کی بھینٹ نہ چڑھائے:منظور وٹو
پی پی پی وسطی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خان وٹو نے کہا ہے کہ ''حکومت ثقافتی ورثہ کو ترقیاتی منصوبوں کی بھینٹ نہ چڑھائے‘‘ اور ساتھ ساتھ اس ثقافت کا بھی خیال رکھے جو اپنے پانچ سالہ دور میں ہم نے پروان چڑھائی تھی اور جسے یاد کر کر کے لوگ اب بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں کہ ماضی میں اس کی کوئی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی کیونکہ یوں ہم نے اپنے ہی سارے ریکارڈز توڑ ڈالے تھے اور اس طرح کی خدمات کے ضمن ہی میں خاکسار کو موجودہ معمولی عہدے سے فارغ کیا جا رہا ہے کیونکہ اصل عہدہ تو عوام کے دلوں میں گھر کرنا ہے جس میں یہ ہیچ مداں اور دیگر معززین پوری طرح کامیاب ہیں اور ہمیں ان گھروں سے بیدخل بھی نہیں کیا جا سکتا؛ حتیٰ کہ عوام کے اصرار اور چیخ پکار پر بھی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''اورنج ٹرین کے خلاف عوام اور سول سوسائٹی احتجاج کر رہے ہیں لیکن حکومت کو پروا نہیں‘‘ حتیٰ کہ اب میرے کہنے کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہو گا حالانکہ میں اس عہدے پر چند دن ہی کا مہمان ہوں، اگرچہ مجھے ہٹانے سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا جب تک کہ زرداری صاحب کا سایۂ شفقت پارٹی کے سر پر ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے حسب معمول ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اک ذرا صبر...
بہتر ہو گا کہ یار لوگ عمران ریحام طلاق پر بغلیں بجانے کا کام اس وقت تک معطل کر دیں جب تک کہ طلاق اپنے جملہ ضابطے پورے کر کے مؤثر نہیں ہو جاتی کیونکہ نوٹس طلاق کے بعد بھی اس میں تین ماہ کا وقفہ موجود ہے جب حسبِ ضابطہ دونوں فریقوں کو اس پر نظرثانی کا موقع بھی دیا جائے گا اور صلح صفائی کی یہ قانونی کوششیں بار آور بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ حالات کے موجودہ نہج پر پہنچنے کے باوجود دونوں کی زبان پر کوئی تلخی موجود نہیں ہے جبکہ عمران خان اس پر افسردہ بھی ہیں اور ریحام خان نے بھی کسی طرح کی بیزاری اور درشتی کا اظہار نہیں کیا ہے جبکہ اس دوران عمران خان کے افراد خانہ کو بھی راضی کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایک طرح سے عمران نے ان کے جذبات کی قدر بھی کر دی اور جیسا وہ چاہتے تھے، ویسا ہو بھی گیا؛ چنانچہ ان لوگوں کی جذباتی حق رسی ایک طرح سے ہو بھی چکی ہے، اس لیے اگر وہ دونوں یہ فیصلہ واپس بھی لے لیتے ہیں تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی کیونکہ اسے ایک عمومی اور عوامی تائید بھی حاصل ہو گی اور دونوں کے درمیان نئے عہد و پیمان اور منصوبہ بندی بھی ممکن ہے۔ لہٰذا...
آج کا مقطع
یہ عشق وہ ہے کہ ہیں نا اُمید ہر دو فریق
اور، انتظار کسی کو، ظفرؔ، کسی کا نہیں