پانچ چھ ماہ کے وقفے کے بعد پھر فارم ہائوس آ گیا ہوں‘ یہ ضروری اس لیے بھی تھا کہ وہاں میری واک موقوف ہو گئی تھی ۔ گھر کے باہر سڑک پر یہ کام ممکن نہ تھا اور واکنگ پارک گھر سے کافی فاصلے پر تھا۔ وہاں تک گاڑی پر جانا ویسے بھی معیوب لگا۔ پائوں پر چوٹ لگی تو دو ماہ تک پلاسٹر چڑھا رہا اور چلنا پھرنا معطل۔ اب گھر میں سو قدم سے زیادہ آدمی کیا چل پھر سکتا ہے۔ ہاتھ پائوں کو رواں رکھنا میرے علاج کا حصہ بھی تھا‘ اور اگر صورت حال یہی رہتی تو رفتہ رفتہ ٹانگیں بالکل ہی مائوف ہو جاتیں اور صورت یہ ہو جاتی کہ ع
حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے‘ بیٹھ گئے
علی الصبح اُسی چڑیا نے جگایا جو غالباً دنیا بھر کے سونے والوں کو جگاتی ہے۔ یہ عام چڑیا نہیں ہوتی‘ نہ ہی یہ عام چڑیا جیسی آواز نکالتی ہے۔ کافی دیر بعد تار پر بیٹھا ایک پرندہ نظر آیا جو وجود میں بھی چڑیا سے بڑا تھا جبکہ اس کے پر نیلے اور باقی حصہ نسواری رنگ کا تھا۔ جب تک وہ تار پر بیٹھی رہی‘ میں اسے دیکھتا اور اللہ کی قدرت کا نظارہ کرتا رہا۔ نیچری حضرات تو کہتے ہیں کہ سب کچھ خود بخود ہی پیدا ہو گیا تھا لیکن یہ رنگ برنگے پرندے‘ مچھلیاں‘ سانپ ‘جانور اور ان کے علاوہ درجنوں قسم کی سبزیاں‘ پھل اور پھول کیسے اپنے آپ پیدا ہو گئے۔ نیز اگر ڈارون صاحب کی تھیوری کو مان بھی لیا جائے کہ انسان پہلے بندر تھا اور آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے آدمی بن گیا تو اب یہ عمل کیوں رک گیا ہے اور اب بندر آدمی کیوں نہیں بن رہے؟
ڈُمّی نے تو دم ہلا کر میرا استقبال کرنا ہی تھا۔ یہاں کے
پھولوں‘پیڑوں اور پرندوں نے بھی مجھے پہچان لیا۔ چڑیوں اور کوئوں نے تو کچھ زیادہ ہی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا۔ ان کے شور سے محسوس ہوتا تھا کہ یا تو وہ خوشی کا اظہار کر رہے ہیں یا احتجاج کہ یہ پھر کہاں سے آ گیا؟ بہرحال‘ واک کا آغاز کر دیا ہے اور آج پہلے دن ایک ہزار قدم چلا ہوں ‘ لیکن وقفے وقفے سے کیونکہ سو ڈیڑھ سو قدم چلنے کے بعد سانس پھول جاتی ہے یعنی اتنا بھی لاغر اور لاچار نہیں ہوں ‘جتنا مجھے وقار خان نے غالب کی زبانی ظاہر کیا ہے۔ سماعت اور بصارت دونوں ٹھیک ہیں۔ عینک کے بغیر اخبارپڑھ سکتا ہوں اور اب کھلی جگہ میسر آئی ہے تو سٹک کے ساتھ چل بھی لیتا ہوں۔ تھوڑا عرصہ پہلے یہ شعر کہا تھا ؎
اور کیا چاہیے کہ اب بھی‘ ظفر
بھوک لگتی ہے‘ نیند آتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ وقار خان شاعر بھی ہیں جو انہوں نے میری صحت اور حالت کے حوالے سے اتنی مبالغہ آرائی سے کام لیا‘ تاہم‘ اگر شاعر ہوتے تو محسن نقوی اور پروین شاکر کی اس قدر تعریف نہ کرتے کیونکہ یہ دونوں معمولی شاعر تھے۔ وہاں میں چھوٹے بیٹے جنید کے پاس تھا اور جہاں ‘یہاں آنے پر آفتاب کی رفاقت کی خوشی تھی وہاں جنید کی جدائی کا غم بھی ۔ پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ یہ اور اس کے بچے میری کمزوری ہیں ۔روانہ ہونے سے پہلے ہی اداسی مجھے گھیر چکی تھی اور یہ شعر ہو چکا تھا ؎
جب تک میں اس کو دیکھ نہ لوں
آنکھوں میں اندھیرا رہتا ہے
اس کے بعد غزل بھی مکمل ہو گئی جو کالم کے آخر پر پیش کروں گا۔ جنید میرے متعدد شعروں کا موضوع رہا ہے جن میں سے دو تو پنجابی زبان میں ہیں اور میرے مجموعے ''ہرے ہنیرے ‘‘ میں شامل ہیں مثلاً ؎
ظفر ‘اکاہڑے رویا میرا سب توں نکا پتر
زور زور دی کنبیاں کندھاں پنڈی شہر دیاں
ظاہر ہے کہ یہ تمام پنڈی/اسلام آباد کے قیام کا حصہ ہے جب میں نے پاکستان نیشنل کونسل میں کچھ عرصے ملازمت کی تھی نیز ؎
کڑیاں جیہا مہاندرا جیون جوگے دا ظفر
چڑھیا گُڈی شیرانوں خیریں چوتھا سال
اسے ہم شروع سے ہی گڈی کہا کرتے تھے۔ پھر جب یہ بسلسلہ ملازمت مسقط چلا گیا تو یہ شعر ہوا ؎
اے ظفر وہ یار تھا کیسا کہ اس کے نین نقش
خون میں شامل تھے‘ آنکھوں کے لیے نایاب تھے
قصہ مختصر‘ میں اپنے بچوں کا عاشق ہوں اور یہ میرے۔ منجھلا بیٹا اویس اوکاڑہ میں ہے اور اس کی یہ دوری مجبوری ہے تاہم ایک تو وہ چکر لگاتا رہتا ہے اور دوسرے اس کے دونوں بیٹے اور بیٹی بسلسلہ تعلیم یہاں پر ہیں ‘ میری بیٹی بھی بچوں کی تعلیم ہی کے سلسلے میں پتوکی سے بحریہ ٹائون میں شفٹ ہو گئی ہے اور میرا دل لگا رہتا ہے‘ تاہم اوکاڑہ کی یاد دل میں اب بھی بھٹکتی رہتی ہے۔ قیام پنڈی ہی کا ایک شعر ہے ؎
نہ ظفرے نوں بھلیا ایر پرانے گھر دا
نہ منڈیاں دی ماں نوں پنڈی دیس پسند
جنید کے ساتھ یہی طے ہوا ہے کہ میں ویک اینڈ پر آ جایا کروں گا تاکہ یہ چسکا بھی بحال رہے۔
یہاں پر خان بابا کے علاوہ سب کچھ معمول کے مطابق ہے جو بیمار ہو کر واپس گھر چلا گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا۔ چونکہ دیہاتی اور کھلا علاقہ ہے اس لیے یہاں پر ٹھنڈ زیادہ ہے۔ اور ‘ اب وہ غزل جس کا اوپر ذکر ہوا ہے:
خوابوں کا بسیرا رہتا ہے
دل ہر دم گھیرا رہتا ہے
جب تک میں دیکھ نہ لوں اس کو
آنکھوں میں اندھیرا رہتا ہے
کر لیا ہے جو کچھ کرنا تھا
پھر بھی بہیترا رہتا ہے
توبھی آ کر لے جا بھائی
جو کچھ بھی تیرا رہتا ہے
اس کا تو کام نبیڑ دیا
باقی اب میرا رہتا ہے
کل جہاں چچیرے رہتے تھے
اب وہاں خلیرا رہتا ہے
پوچھو نہ شہنشاہی اس کی
چوروں میں لٹیرا رہتا ہے
بس دوڑتا پھرتا ہے ڈپ ڈپ
اندرجو بچھیرا رہتا ہے
اس کی آنکھوں میں شام‘ ظفر
اور ‘ منہ پر سویرا رہتا ہے
آج کا مقطع
ہمیں بھی تھی نہ کچھ اُمید پہلی بار، ظفر
سلوک اس کا دوبارہ ہی اور ہونا تھا