"ZIC" (space) message & send to 7575

پولیس گردی، معمول کی بات!

اوکاڑہ، 13 نومبر 2015ء 
ہوا کو حبس کی تحویل میں دیا گیا ہے
یہ کس کے حکم کی تعمیل میں دیا گیا ہے
بنام عدل مری ساری عرضداشتوں کا
جواب لہجۂ قابیل میں دیا گیا ہے
محترم ظفر اقبالؔ صاحب!
ملا کی دوڑ مسیت تک، لہٰذا آپ کو اپنی بپتا سنا رہا ہوں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ روزی روٹی کے لیے حبیب بینک سے منسلک ہوں۔ اکبر روڈ برانچ میں بطور منیجر تعینات ہوں۔ سکیورٹی کے نقطۂ نظر سے پولیس اہلکار کم و بیش دوسرے تیسرے دن برانچ میں آتے رہتے ہیں۔ بینک نے اس ضمن میں ایک سکیورٹی رجسٹر متعارف کرایا ہوا ہے جس میں وہ سکیورٹی کے نقطۂ نظر سے اپنے تاثرات درج کرتے ہیں۔ نیچے دستخط اور تاریخ لکھ کر برانچ کو واپس کر دیتے ہیں۔ مورخہ 4 اگست 2015ء کو ایک اے ایس آئی برانچ میں آئے، صورتِ حال کے مطابق سکیورٹی کے بارے میں اپنے تاثرات رقم کیے جو کہ اطمینان بخش تھے۔ کچھ دیر کے لیے میرے پاس بھی رُکے۔ برانچ میں کسٹمرز کا رش تھا، میں جنہیں ڈیل کرنے میں مصروف تھا۔ موصوف اے ایس آئی نے یہ سمجھا کہ اس کی مناسب 
آئو بھگت نہیں کی گئی؛چنانچہ انہوں نے حساس تنصیبات ایکٹ کی خلاف ورزی پر رقم الحروف کے خلاف پرچہ کاٹ دیا حالانکہ حساس تنصیبات ایکٹ کے مطابق وہ اس کے مجاز ہی نہ تھے۔ ایکٹ میں اس کا طریقِ کار درج ہے کہ ہر ضلع میں ڈی سی او صاحب ایک کمیٹی تشکیل دیں گے جو تین ارکان پر مشتمل ہو گی جس میں ایک پولیس اہلکار، ایک پراسیکیوشن برانچ اور تیسرا انٹیلی جنس سے ہو گا۔ ان سب حضرات کا کم از کم گریڈ 16 میں ہونا لازمی ہے۔ تین دفعہ یہ کمیٹی ذمہ دار شخص کو تحریری طور پر متنبہ کرے گی اور چوتھی دفعہ اسے شنوائی کے لیے بلوائے گی۔ اگر وہ پھر بھی اپنا رویہ درست نہیں کرتا تو اس کے خلاف پرچے کی سفارش کرے گی۔ مگر اس کیس میں متعلقہ اے ایس آئی صاحب نے صبح ہمارے حق میں ریمارکس لکھنے کے باوجود میرے خلاف پرچہ درج کرا دیا جس کی اطلاع مجھے سینتیس یا اڑتیس دن کے بعد کی گئی۔ سکیورٹی رجسٹر میں درج ریمارکس کی وجہ سے ایڈیشنل سیشن جج صاحب نے میری عبوری ضمانت کنفرم کر دی۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں لکھا کہ کیس کی بنیاد معاندانہ رویے کی غماض ہے، طرفہ تماشا یہ کہ شکایت 
کنندہ بھی وہی ہے اور تفتیشی افسر بھی اے ایس آئی صاحب بہ نفسِ نفیس آپ ہی ہیں۔ اس پر دُہائی دینے کے لیے خاکسار نے ڈی پی او صاحب (فیصل رانا)سے ملنے کی جسارت کی انہوں نے تحمل سے میری گذارش سنی اور کہا کہ بظاہر آپ کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے دفتر کے ایک نیک نام انسپکٹر کے ذمے انکوائری لگا دی جنہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ کیس کی رجسٹریشن میں قواعد و ضوابط کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ڈی پی او صاحب کے حکم پر مجھے دفتر بلوایا گیا اور مذکورہ اے ایس آئی کو بھی طلب کیا گیا۔ میں 6 نومبر کو ٹھیک 9 بجے ڈی پی او صاحب کے دفتر میں حاضر ہوا۔ موصوف اے ایس آئی موجود نہیں تھے۔ تقریباً 2 بجے مجھے ذاتی شنوائی کے لیے بلوایا گیا۔ اے ایس آئی اس وقت تک بھی غیر حاضر تھے۔ چنانچہ ایس پی انویسٹی گیشن کے سامنے مجھے فدویانہ انداز میں پیش کیا گیا۔ جنہوں نے میرا مؤقف سنا، اے ایس آئی کے بارے استفسار کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ غیر حاضر ہیں۔ میرے سامنے ایس پی انوسٹی گیشن نے کہا کہ اسے شوکاز نوٹس دیا جائے۔ مگر بعد میں حقائق کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے صاحب بہادر نے فیصلہ دیا کہ ان کا پیٹی بھائی اے ایس آئی درست ہے اور راقم الحروف دروغ گو ہے۔
اس ضمن میں میری صرف یہی عرض ہے کہ اگر حقائق کی روشنی میں میں غلط ہوں تو میں اس ''حسنِ سلوک‘‘ کا مستحق ہوں جو میرے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ اگر نہیں تو کم از کم ایسے معاملات کا سدِباب ضرور کیا جانا چاہیے:
فصیل جسم میں مدفون کر دیا گیا ہے
بری طرح سے مرا خون کر دیا گیا ہے
میں اس زمیں پہ محبت پڑھانے آیا تھا
منافقت میرا مضمون کر دیا گیا ہے
مجھے سنا ہی نہیں ہے کسی عدالت نے
تیرا کہا ہوا قانون کر دیا گیا ہے
مسعود احمد
برخوردارمسعود احمد کو واضح ہو کہ جہاں ڈی پی اوز سے منتھلیاں وصول کی جاتی ہوں، وہاں پولیس کسی کو کیا انصاف دے گی۔ اس کے علاوہ انتخابات جتوانے والی پولیس کے خلاف حکومت کیا ایکشن لے سکتی ہے؛تا ہم بعض اپ رائٹ اور دیانتدار افسر اب بھی موجود ہیں، میں نے فیصل رانا صاحب کی تعریف سن رکھی ہے۔ آپ انہی کے سامنے دوبارہ پیش کیوں نہیں ہو جاتے! حکومت کچھ نہیں کرے گی۔ آئی جی بھی ایک عمدہ افسر ہیں، ان کے سامنے پیش ہو جائیں، شاید وہی اس کی منصفانہ تفتیش کرا دیں ورنہ عدالتیں تو ہیں ہی۔ شاید ان کے چکر کاٹنے سے آپ کچھ سمارٹ بھی ہو سکیں۔ اگر اندر ہو جائیں تو بھی خیر ہے۔ چراغ حسن حسرت اور فیض احمد فیض سمیت لاتعداد شاعر جیل یاترا کر چکے ہیں، یعنی ع
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی!
آج کا مطلع
کچھ ایسے لگتا ہے باہر بھی اپنا گھر کوئی تھا
ہمارے ساتھ جو ایک اور دربدر کوئی تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں