مُلک کے ہر کونے سے دہشت گردی جڑ
سے اُکھاڑ پھینکیں گے : نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''مُلک کے ہر کونے سے دہشت گردی جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں گے‘‘ جس کے لیے چاروں کونے منتخب کر لیے گئے ہیں البتہ درمیان کا سارا علاقہ اس سے مستثنٰی ہو گا کیونکہ 500 کے قریب تو ہمارے ہاں ہی ایسے عناصر کامیاب ہو گئے ہیں جو شروع سے ہی ہمارے لیے ماشاء اللہ نرم گوشہ رکھتے ہیں اس لیے ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے بہت بڑے جگرے کی ضرورت ہے جبکہ ہمارے پاس تو صرف پیٹ ہی پیٹ ہے اور اسی کو بھرنے سے فرصت نہیں ملتی‘ تاہم دہشت گردی کی جڑ تلاش کرنے کی کوششیں الگ سے کی جا رہی ہیں تاکہ کسی مناسب موقع پر اُسے اُکھاڑ پھینکا جا سکے‘ اگرچہ ہم اُکھاڑ پچھاڑ کے قائل نہیں ہیں بلکہ تعمیر و ترقی پر یقین رکھتے ہیں جس کی ادنیٰ سی مثال ہم لوگوں کی اپنی ترقی ہے جو مخالفوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔ انہوں نے کہا ''فلاح عامہ کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں‘‘ اور چونکہ ہمارا تعلق خود عوام سے ہے اور عوام ہی نے ہمیں عوامی پولیس کے ذریعے منتخب کیا ہے لہٰذا قدرتی طور پر اپنی فلاح ہماری ترجیح اّول ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں افغان وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
خواتین کو مکمل طور پر بااختیار بنانا وقت کا
اہم ترین تقاضا ہے: شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''خواتین کو مکمل طور پر بااختیار بنانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے‘‘ اس سے علمائے کرام‘ خاص طور پر مولانا فضل الرحمن ناراض نہ ہوں کیونکہ خواتین برقعہ بلکہ شٹل کاک برقعہ پہن کر بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کر سکتی ہیں اور اُنہیں بااختیار بنانا اس لیے بھی ضروری ہو گیا ہے کہ اگر گھر میں اُنہی کا حکم چلتا ہے تو باہر بھی چلنا چاہیے‘ چنانچہ سب سے پہلے بلدیاتی نمائندوں کو بااختیار بنایا جائے گا جس کی بری عادت کے پی کے والوں نے ڈال دی ہے اور جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ معزز ارکان اسمبلی اپنے اختیارات ان کے ساتھ بانٹ کر اپنے پائوں پر آپ کلہاڑی مارنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے اور ہماری حکومت ارکان اسمبلی کے سہارے چل رہی ہے‘ بلدیاتی نمائندوں کے سہارے نہیں‘ اس لیے یہ خواتین و حضرات خاطر جمع رکھیں اور اتنی ہی چودھرکافی سمجھیں جتنی انہیں حاصل ہو گئی ہے کیونکہ لالچ کرنا اچھی بات نہیں ہے اور ہماری طرح ایثار کی عادت ڈالنی چاہیے جیسا کہ خاکسار نے صرف دس بارہ وزارتیں ہی رکھی ہوئی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں این جی او کے وفد اور ڈاکٹر عبدالمالک سے ملاقات کر رہے تھے۔
دہشت گردی عالمی مسئلہ بن چکی ہے
مل کر خاتمہ کرنا ہو گا : خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''دہشت گردی عالمی مسئلہ بن چکا ہے‘ مل کر اس کا خاتمہ کرنا ہو گا‘‘ جیسے یہاں حکومت اور ہم مل کر سب کچھ کر رہے ہیں اور اسی میل ملاپ اور پیر اعجاز شاہ کی کرامات سے زرداری صاحب بھی دونوں بڑے ریفرنسز سے بری ہو گئے ہیں اور اب حکومت اور پیر صاحب سے عرض کی ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے لیے بھی دوچار پھونکیں مار دیں تاکہ گرداب میں پھنسی ہوئی ان کی کشتی بھی کنارے لگے جس کے بعد دونوں سابق وزرائے اعظم کے لیے پھونکیں مروائی جائیں گی بلکہ سارے چراغ ان پھونکوں ہی سے بجھائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے‘‘ جیسا کہ کچھ عرصے سے ہمارے خلاف انتقامی دہشت گردی کا ارتکاب کیا جا رہا ہے‘ اگرچہ اس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلنا لیکن وقتی پریشانی سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ''اسی دہشت گردی میں ہم نے اپنی عظیم قائد بینظیر بھٹو کو بھی کھو دیا‘‘ اور کُبڑے کو لات اس طرح راس آئی کہ اقتدار کا اونٹ زرداری صاحب کی کروٹ بیٹھ گیا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں فرانسیسی سفارت خانے کا دورہ اور اظہار تعزیت کر رہے تھے۔
اقتصادی راہداری افغانستان تک
پھیلائیں گے : اسحاق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ''اقتصادی
راہداری افغانستان تک پھیلائیں گے‘‘ جیسے کہ خاکسار خود دبئی اور امارات کے دیگر علاقوں تک پھیل چکا ہے اور کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ اگر بگڑنے پہ آیا تو یہ کام کہیں اور سے شروع ہو گا اور یہ دن آ کر ہی رہے گا‘ اس کے پیش نظر سب حکومتی معززین نے سارا کچھ امارات سمیت دیگر مغربی ممالک میں ڈھو رکھا ہے اور خود بھی وقت پڑنے پر اُڈاری مار کر وہاں پہنچ جائیں گے بشرطیکہ اس سے پہلے ہی قابو نہ کر لیا گیا کیونکہ فائلیں بن رہی ہیں اور وہ منحوس وقت کسی لمحے بھی آ سکتا ہے! اگرچہ پہلے جو ایسا وقت آیا تھا‘ اُسے ہم نے خود ہی بُلایا تھا اور اب بھی آثار کچھ ایسے ہی نظر آ رہے ہیں کیونکہ ہم اپنی درخشندہ روایات سے ''روگردانی‘‘ نہیں کر سکتے‘ ویسے بھی ہماری کارگزاریوں اور لمبے چوڑے دعوئوں کا پول بس کُھلنے ہی والا ہے‘ اس لیے اگر کسی بہانے سیاسی شہید بن سکیں تو ایک اور باری بھی لے سکتے ہیں ورنہ تو کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اپنے افغان ہم منصب سے ملاقات کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
اس طرح بادلوں کی چھتیں چھائی تھیں‘ ظفر
چاروں طرف ہوا کا سمندر سیاہ تھا