"ZIC" (space) message & send to 7575

مہرباں کیسے کیسے

اس کالم کا مقصد محض میسج اور فون کرنے والوں کا شکریہ ادا کرنا ہے جبکہ میں میسج صرف کھول سکتا ہوں‘ کر نہیں سکتا۔ کوئی بہت ضروری ہو تو کسی پوتے پوتی سے کروا لیتا ہوں۔ یار لوگ اس طرح تعریف بھی کرتے ہیں اور تنقید بھی۔ تعریف پر خوش ہوتا ہوں اور تنقید کا بُرا نہیں مناتا۔ سب سے انوکھا میسج جام پور سے شعیب زمان کا ہوتا ہے جس میں وہ میری خیریت دریافت کرتے ہیں اور بس‘ بلکہ اکثر اوقات تو فون کرتے ہیں۔ چنانچہ فون اٹھاتے ہی السلام علیکم کے بعد بتاتا ہوں کہ میں خیریت سے ہوں‘ شکریہ جواب میں وہ سلامت رہیں کی دُعا دیتے ہیں اور یہ ان کا ہر روز کا معمول ہے جس میں کبھی ناغہ نہیں ہوا۔ کئی بار میں نے پوچھا بھی کہ کوئی خدمت ہو تو بتائیں‘ اگر میں آپ کے لیے کچھ کر سکا تو مجھے خوشی ہو گی لیکن ایسی کوئی بات نہیں نکلتی۔
دوسرے مہربان مردان سے ڈاکٹر ہُما ہیں۔ اپنے تازہ میسج میں انہوں نے فاروقی والے کالم پر پسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور ساتھ ہی یہ پرچہ بھی لگایا ہے کہ اپنی عمر سے چھوٹوں کو بھی صاحب لکھنا کوئی جُرم نہیں ہوتا۔ وہ اتنی دور سے چل کر آپ کے پاس آئے اور آپ سے اتنا بھی نہ ہو سکا۔ وہ شاید نہیں جانتے کہ فاروقی میرے بہت پرانے اور عزیز ترین دوست بھی ہیں اس لیے انہیں صاحب لکھنے سے ایک طرح کا بیگانہ پن ہی ظاہر ہوتا۔ پھر لکھتے ہیں کہ 
بڑی گاڑی کا ذکر اچھا لگا۔ دراصل تو انہوں نے طنز کیا ہے اور اسے ایک گھٹیا حرکت سمجھتے ہیں حالانکہ خدا اگر فارم ہائوس دے سکتا ہے تو کیا بڑی گاڑی نہیں دے سکتا؟ حالانکہ بڑی گاڑی بھجوانے کی وجہ بھی بتائی گئی تھی کہ وہ چھ لوگ تھے اور چھوٹی یا عام گاڑی میں نہیں سما سکتے تھے۔ کیا آپ تب خوش ہوتے اگر میں بیل گاڑی بھجواتا؟
سیّد مقبول حسین شاہ ایڈووکیٹ اوکاڑہ میں میرے کولیگ تھے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ایکسیڈنٹ کی لپیٹ میں آ گئے اور اب پریکٹس نہیں کرتے‘ ان کے صاحبزادے بتا رہے تھے کہ انہیں ہم بہت کہتے ہیں کہ کسی قریبی مسجد میں نماز پڑھنے چلے جایا کریں لیکن انہوں نے کبھی ایسا نہ کیا اور آخر ایک روز سڑک پار کرتے ہوئے ایک موٹر سائیکل ان سے ٹکرا گیا اور کولہے کی ہڈی تڑوا بیٹھے‘ ہور چُوپو! کسی کے کالم میں میرا ذکر آئے تو مجھے ضرور بتاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ کچھ پرانی یادیں بھی تازہ کرتے ہیں۔ آپ آج کل اپنے آبائی شہر رینالہ خورد میں رونق افروز ہیں۔ ان کی مکمل صحتیابی کے لیے دعا گو ہوں۔
ملتان سے شاعرہ رفعت ناہید کا مستقل رابطہ اس لیے بھی رہتا ہے کہ میرے مطلعے اور مقطعے چُن چُن کر مجھے بھجواتی رہتی ہیں۔ میرے کالم کے آخر میں درج اشعار زیادہ تر اُن ہی کے مجموعے سے ہوتے ہیں۔ میری جانب سے پرندوں کے ذکر پر بتاتی ہیں کہ ہمارے گھر کے اندرونی صحن میں متعدد درخت ہیں جن پر چڑیاں دن بھر شور مچایا کرتی ہیں۔ ان میں کچھ بالکل چھوٹی سی سیاہ رنگ کی چڑیاں بھی ہیں۔ میں نے کہا کہ میرے خیال میں یہ پدّی ہے۔ اس کا شور بہ بنائیں، اگر بن جائے تو یہ پدّی ہی ہو گی! یہ بھی بتایا کہ ایک چیل بھی ہے جو ہر وقت ممٹی پر بیٹھی رہتی ہے۔ انہیں اعتراض چیل پر نہیں‘ اس کے بیٹھے رہنے پر ہے۔ ملتان کے احوال بھی بتاتی رہتی ہیں جس کی چند چیزوں میں سے اب گرد، گدااور گورستان ہی باقی ہوں گے کیونکہ گرما سے تو جان خلاصی ہو چکی ہے یعنی ملتان کے چار تحفوں میں سے ایک کی کمی آ گئی ہے۔ کم از کم پانچ ماہ کے لیے۔ اوکاڑہ سے مسعود احمد رابطے میں رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم اوکاڑہ والوں کو بھی اپنے شہر کے احوال آپ کے کالم ہی سے معلوم ہوتے ہیں۔ میں نے اگلے روز اپنی شاعری کو سُرخاب کا پر لگانے کی بات کی تو انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ پر لگانے کی کیا ضرورت ہے، آپ کی شاعری میں سے تو خود کئی سُرخاب نکلتے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ میری عافیت بہت مشکوک ہو چکی ہے جو اس کے بارے میں شعیب زمان اس قدر تشویش میں مبتلا رہتے ہیں حالانکہ یہ تشویش خود مجھے ہونی چاہیے‘ اگرچہ کچھ حضرات کے نزدیک میں دوبارہ جوان ہو رہا ہوں...
کس کا یقین کیجئے‘ کس کا یقیں نہ کیجئے‘ 
لائے ہیں بزم یار سے دوست خبر الگ الگ 
اور‘ اب ان سب دوستوں کے لیے یہ تازہ غزل :
ڈھونڈیئے ہم کو‘ یہیں پڑے ہوئے ہیں 
جو کب سے آپ کے زیرنگیں پڑے ہوئے ہیں
ہمیں کسی نے اٹھایا نہیں کہ آپ ہمیں
جہاں یہ ڈال گئے تھے‘ وہیں پڑے ہوئے ہیں
ہمارا راستہ روکا ہوا ہے آپ نے ہی
یہ ہم تو آپ کے پیچھے نہیں پڑے ہوئے ہیں
ہوئی ہماری تواضع کئی طریقوں سے
کہیں نکالے گئے ہیں‘ کہیں پڑے ہوئے ہیں
کہیں مکان ترستے ہوئے مکینوں کو 
کہیں مکانوں سے باہر مکیں پڑے ہوئے ہیں
ہمیں ہی قافلہ خواب لے کے چلنا تھا
سو‘ گرد راہ کی صورت ہمیں پڑے ہوئے ہیں
ہمارے ساتھ کے ڈوبے ہوئے سفینے بھی
صحیح و سالم ابھی تہ نشیں پڑے ہوئے ہیں
جو آسماں کو بھی خاطر میں لائے تھے نہ کبھی
بڑے وسان سے زیرِ زمیں پڑے ہوئے ہیں
ہمیں کسی نے گرایا نہیں گڑھے میں‘ ظفر
ہم اپنے شوق میں اپنے تئیں پڑے ہوئے ہیں
آج کا مقطع
میں ایک قطرے کو دریا بنا رہا ہوں، ظفرؔ
پھر اس کے بعد اسے میں نے پار کرنا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں