بھارت کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات
کے لیے تیار ہیں : نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''بھارت کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کے لیے تیار ہیں‘‘ جبکہ بھارت کو مسئلہ کشمیر پر بات کرنا کچھ اچھا نہیں لگتا اس لیے ہم اس کے بغیر ہی مذاکرات کے لیے تیار ہیں کیونکہ ہمسایہ ماں جایا کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچائی جا سکتی اور اگر اس سے پہلے آموں اور ساڑھیوں کا تبادلہ نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ہو چکا ہے تو اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر خواہ مخواہ ضد کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ بھارت کے ساتھ تجارت بھی حسب معمول کُھلی ہے جو اگرچہ ہمارے خسارے میں جا رہی ہے مگر عزیز ہمسایوں کی خوشنودی خاطر سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ پھر بھارت سے ٹماٹر‘ آلو اور پیاز کی درآمد ہمارے کسانوں کے لیے اگرچہ کمرتوڑ مسئلہ ہے اور وہ اپنے آلو وغیرہ سڑکوں پر پھینکتے بھی پائے گئے ہیں لیکن اربوں کا پیکج دے کر اُن کی پوری طرح سے حق رسی کر دی گئی ہے‘ اس لیے وہ اپنے آلو‘ پیاز اور ٹماٹر وغیرہ سڑکوں پر پھینکنے کے لیے تیار رہیں جن سے غریب عوام مُفت استفادہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گرد انسانیت کے مشترکہ دُشمن ہیں‘‘ اور ہماری طرح اگر حکومت فرانس
بھی ان کے ساتھ مُک مکا کر لے تو دہشت گردی سے ہماری طرح محفوظ رہ سکتی ہے جس کا طریقہ عزیزی شہبازشریف سے پوچھا جا سکتا ہے کہ ان سے کیسے بات کرنی ہے‘ صرف اُن کے مدارس وغیرہ کو تحفظ فراہم کرنا ہو گا اور ان کے سہولت کاروں پر ہاتھ ہولا رکھنا ہو گا‘ اور یہ لوگ چونکہ انسانیت کے دُشمن ہیں اور پاکستان کے عوام چونکہ کیڑے مکوڑوں اور جانوروں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں اور چونکہ دائرہ انسانیت ہی سے باہر ہیں‘ اس لیے بھی وہ دہشت گردوں کا ہدف بننے سے بچ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم دہشت گردی کے خاتمہ میں فرانس حکومت کی مدد کرنے کو تیار ہیں‘‘ کیونکہ جب ساری دُنیا قرضے دے دے کر ہماری مدد کر رہی ہے تو کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے؟ جس کا کارگر نسخہ میں نے بتا ہی دیا ہے کہ ان کے ساتھ مفاہمت سے کام لیا جائے اور پھر اس کا کرشمہ دیکھا جائے جو ہم نام نہاد اپوزیشن پر بھی استعمال کر رہے ہیں اور وہ جب حکومت میں ہوتے ہیں تو اسی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر ساری دُنیا کو حیران کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پیرس حملوں میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر ہمیں بہت افسوس ہے‘‘ اگرچہ ہمارے ہاں بھی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے لیکن شکر ہے کہ وہ اتنی قیمتی نہیں تھیں اس لیے زیادہ افسوس کا معاملہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان برطانیہ کو ایک بااعتماد دوست تصور کرتا ہے‘‘ اگرچہ بھارت کے ساتھ اس کے بعض معاہدے ہمارے لیے باعث تشویش ہیں‘ تاہم بھارت کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ہم اس کا کُھل کر اظہار نہیں کرتے کیونکہ کسی کی دل شکنی کرنا ہماری اس ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے‘‘ اُمید ہے کہ دہشت گرد حضرات اس بیان کو زیادہ
سنجیدگی سے نہیں لیں گے بلکہ میرے ُملک میں تو میری کسی بات کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا کیونکہ وہاں پر سوچنے سمجھنے کی مکمل آزادی ہے جبکہ ہمارے عوام سوچتے ہمارے خلاف اور ووٹ ہمیں دیتے ہیں کیونکہ ویسے بھی وہ پولیس‘ پٹواریوں اور دیگر سرکاری اہلکاروں کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے اور یہ بھی ہماری بنیادی پالیسی ہے کہ سب کو مل جُل کر رہنا اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ البتہ ٹانگیں کھینچنے والوں پر ہم نے ظاہر اور پوشیدہ دونوں طریقوں سے واضح کر دیا ہے کہ اپنی حدمیں رہیں اور شریف آدمیوں کو تنگ کرنا چھوڑ دیں جس کا کافی اثر بھی ہوا ہے اور وہ کافی اوقات میں آئے ہوئے لگتے ہیں اور آئندہ ایسی حرکتیں کرنے سے باز رہیں گے کیونکہ ہم نے بھی تخت یا تختہ کا نعرہ لگا دیا ہے اور اپنی دھاک پوری طرح سے بٹھا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان نیشنل ایکشن پلان کے تحت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے سخت اقدامات کر رہا ہے‘‘ اگرچہ یہ کام ابھی شروع تو نہیں کیا جا سکا کیونکہ بہت سی مجبوریاں لاحق ہیں اور اسی لیے ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے‘ ویسے بھی ہم 'سہج پکے سو میٹھا ہو‘ کے قائل ہیں کیونکہ جب تک میٹھا پُورا نہ ہو‘ کھانے کا مزہ ہی نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ ''خطے میں امن کا قیام ہماری ترجیح
ہے‘‘ خصوصاً بھارت کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار بنانا ہماری ترجیح اوّل ہے جس کے ساتھ کاروباری تعلق بھی قائم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ کاروبار تو ایسی چیز ہے کہ اسے چلتے ہی رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم ہمسایوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے خواہاں ہیں‘‘ اور اب تو ہم کافی حد تک بااختیار بھی ہو گئے ہیں اس لیے کسی کو خاطر میں لائے بغیر ہم اس میں پیشرفت کرتے رہیں گے اور یہ بات بھی اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں کہ کشمیر جیسے فروعی معاملات پر بھارت کے ساتھ تعلقات کو دائو پر نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ کشمیر میں اپنی جنگ آزادی ضرب عضب ہی کی طرح لڑ رہے ہیں اور اُن کے کام میں مداخلت کرنا کسی طرح سے بھی مناسب نہیں ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے بُری طرح سے متاثر ہو رہا ہے‘‘ کیونکہ یہ تبدیلی کسی اور طرف سے بھی آ کر سارا موسم تبدیل کر سکتی ہے۔ آپ اگلے روز مالٹا میں فرانسیسی صدر فرانسواولاندا سے ملاقات کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
ویراں تھی رات چاند کا پتھر سیاہ تھا
یا پردئہ نگاہ سراسر سیاہ تھا