اپنے دوست‘ صحافی اور نہایت عمدہ شاعر صلاح الدین محمد کی وفات کی اطلاع جناب انتظار حسین کے کالم سے ہوئی‘ بلکہ یہ بھی معلوم ہوا کہ کُچھ عرصہ پہلے بھی ان کے انتقال کی خبر کسی نے اُڑا دی تھی جو کہ غلط ثابت ہوئی۔ تاہم سُنا تو یہی ہے کہ جس کی موت کی جھوٹی خبر اُڑ جائے‘ بہت لمبی عُمر پاتا ہے لیکن یہاں یہ بات سچ ثابت نہیں ہوئی۔ عُمر بھی کوئی زیادہ نہیں تھی۔ زیادہ سے زیادہ پچپن برس کے ہوں گے۔ لمبے تڑنگے وجیہ‘ سانولے اور صحت مند ع
خوش درخشید ولے شعلٔہ مُستعجل بود
ہماری زیادہ تر ملاقاتیں محُبی حیدر فاروق مودودی کے ہاں اسلامیہ پارک میں ہوتی رہیں جہاں ہر ہفتے ایک محفل دوستاں برپا ہوا کرتی تھی۔ چائے چلتی اور ادب و سیاست پر گفتگو ۔جی او آر تھری سے وہ علاقہ کُچھ زیادہ دُور نہ تھا‘ اس لیے میں پیدل ہی جا پہنچتا‘ کہ اس بہانے شام کی واک بھی ہو جاتی۔ نظم لکھتے تھے۔ شاید کبھی غزل بھی کہی ہو جو میرے علم میں نہیں ہے۔ ان کے گھر پر بھی آنا جانا رہا۔ ملک معراج خالد کے ساتھ خصوصی تعلقات تھے‘ چنانچہ جن دنوں ملک صاحب صاحب فراش ہو کر میو ہسپتال کے البرٹ وکٹر ہال میں داخل تھے، ہم دونوں وہاں اُن سے ملنے جایا کرتے تھے۔ مُجھ سے خاص طور پر وہ غزلیں سُننے کی فرمائش کرتے
جو میں نے بھٹو صاحب سے مایوس ہو کر کہی تھیں۔ مرحوم بنگال نژاد ہونے کے باوجود صحیح تلفظ کے ساتھ اُردو میں بات کرتے۔
ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ اُن دنوں اُن کا خیال تھا کہ اِن کے کسی مُلک میں سفیر تعینات ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ مُجھے بھی کہا کہ اس منصب کے لیے آپ بھی نہایت مناسب ہیں‘ کیوں نہ آپ کے لیے بھی کوشش کی جائے۔ ایک مقامی پیر کی کرامات کے بارے میں انہوں نے سُن رکھا تھا کہ اللہ والے ہیں‘ کہنے لگے کہ چل کر ان سے دُعا لیتے ہیں۔ چنانچہ وہاں پہنچے اور دُعا کرائی لیکن مجھے وہ ہرگز متاثر نہ کر سکے۔ واپس آنے لگے تو پیر صاحب نے فرمائش کی کہ اُن کے ایک مُرید یا ملازم نے بھی لاہور جانا ہے‘ اُسے بھی لیتے جائیں۔ صلاح الدین نے حامی بھر لی لیکن میں نے اُسے گاڑی سے اُتار دیا۔ شاید اسی بدسلوکی کے سبب نہ صلاح الدین کہیں سفیر مقرر ہو سکا اور نہ ہی میں!
ملتان سے ہمارے دوست شاکر حسین شاکر نے اپنے تازہ کالم میں ناصر کاظمی کی یادوں کو تازہ کیا ہے اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی ملتان والا ناصر کاظمی کا ذکر کرے اور اس کے ساتھ اسلم انصاری کا نہ کرے۔ اسلم انصاری ہمارے سینئر بلکہ میری طرح بزرگ شاعر ہیں جنہیں شاکر صاحب نے صاحبِ عہد کا لقب عطا کیا ہے۔ وہ موصوف سے اپنی ارادات کا اظہار کسی اور طریقے سے بھی کر سکتے تھے اور میری گزارش صرف یہ ہے کہ اس لفظ یا ترکیب کو ٹکے ٹوکری اور بے توقیر نہ کیا جائے۔ کسی زمانے میں یعنی ''گلافتاب‘‘ کے دیباچے میں افتخار جالب نے مُجھے صاحب عہد قرار دیا تھا تو میں نے تحریر سے اسے حذف کر دیا تھا لیکن اُس نے بڑے اصرار سے اسے بحال کروا لیا۔ تاہم شاکر حسین شاکر نے ناصر کاظمی سے انصاری صاحب
کے قریبی تعلق کا ذکر تو کیا ہے لیکن وہ تو کسی زمانے میں یعنی جب اسلم انصاری باقاعدہ نوجوان تھے تو ناصر کے باقاعدہ محبوب ہُوا کرتے تھے یعنی یہ تعلق قریبی سے بھی زیادہ تھا۔
شاکر حسین نے ناصر کاظمی کا جو شعر اسلم انصاری کے حوالے سے نقل کیا ہے‘ یعنی ؎
نئے کپڑے بدل کر جائوں کہاں اور بال بنائوں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا، میں باہر جائوں کس کے لیے
انہوں نے یہ البتہ ضرور لکھا ہے کہ اسلم انصاری جب ملتان چلے گئے تو ناصر اکثر یہ شعر گنگنا کر اُداس ہو جایا کرتے تھے‘ اگرچہ اس شعر کے حوالے سے میرے کُچھ تحفظات ہیں اور وہ ''نئے کپڑے بدل کر‘‘ سے ہیں۔ دراصل وہ کہنا تو یہ چاہتے تھے کہ نئے کپڑے پہن کر جائوں کہاں‘ کیونکہ نئے کپڑے بدل کر کا تو مطلب یہ ہے کہ وہ نئے کپڑے اتار کر اور پُرانے کپڑے پہن کر جانا چاہتے ہیں جو ظاہر ہے کہ خلافِ واقعہ ہے‘ اور لُطف یہ ہے کہ شاکر نے اپنے کالم کا عنوان ہی ''نئے کپڑے بدل کر جائوں کہاں‘‘ جمایا ہے۔ اس سلسلے میں مزید عرض ہے کہ اگر مصرعہ اس طرح ہوتا کہ 'کپڑے بدل کر جائوں کہاں‘ تو بھی ٹھیک ہوتا کیونکہ اس کا مطلب بھی یہی تھا کہ پُرانے کپڑے اُتار کر اور نئے پہن کر جائوں۔
اسی دن اور اسی اخبار میں ہمارے محترم اوریا مقبول جان کا جو کالم شائع ہوا ہے‘ اس کا عنوان یہ ہے ''یہ دوستی کی پینگیں نہیں چڑھنے والیں‘‘ جُملہ اگر مکمل ہوتا تو اس طرح ہو سکتا تھا کہ یہ دوستی کی پینگیں چڑھنے والی نہیں ہیں لیکن موجودہ صورت میں ''چڑھنے والیں‘‘ کسی طور بھی مناسب نہیں لگتا۔ جب صاحب موصوف ہمارے یہاں کالم لکھا کرتے تو ہم ان کی اُردو پر رشک کیا کرتے تھے لیکن جب سے وہ چھلانگ لگا کر دوسرے اخبار میں گئے ہیں‘ اُردو زبان کے حوالے سے کُچھ زیادہ ہی آزاد ہو گئے ہیں۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہ جُملہ انہوں نے نظر بٹّو کے طور پر لکھا ہے تاکہ اُن کی زبان نظر بد سے بچی رہے۔ جب آپ ڈپٹی کمشنر تھے تو اُردو زبان کی محبت میں ہی‘ جہاں ہوتے‘ مشاعرہ کروایا کرتے اور ہمیں مدعو کرنے کی زحمت بھی اٹھاتے۔ اُمید ہے اسے گُستاخی کی بجائے یاد آوری ہی سمجھیں گے یعنی ؎
خطا نمودہ ام و چشمِ آفریں دارم
آج کا مقطع
بولا ہے ظفرؔ جھوٹ ہی لوگوں سے کچھ اتنا
اب آئے گی کیا بات میں تاثیر ہماری