دہشت گردی سنجیدہ خطرہ ہے‘
اس سے مل کر نمٹنا ہو گا: نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''دہشت گردی سنجیدہ خطرہ ہے‘ اس سے مل کر نمٹنا ہو گا‘‘حالانکہ اب تک تو میں اسے مزاحیہ خطرہ ہی سمجھتا رہا ہوں اور اس پر اکثر اوقات ہنستا بھی رہتا تھا لیکن اب پوری طرح علم ہونے پر اس سے نمٹنے کی ضرورت پیش آئی ہے جبکہ اب تو پیپلز پارٹی والوں سے مل کر بھی نمٹا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ مفاہمت ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں برادرم آصف زرداری واپس وطن آ رہے ہیں جبکہ انہیں گرفتار نہ کرنے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے بلکہ ...ڈاکٹر عاصم حسین پر سے بھی مصیبت کے بادل چھٹنے والے ہیں کیونکہ رینجرز سے ان کی جان خلاصی ہو گئی ہے اور اب صرف نیب رہ گئی ہے جس کی سعادت مندی میں کسی کو بھی کوئی شبہ نہیں ہو سکتا یعنی ع
آ ملیں گے سینہ چاکانِ وطن سے سینہ چاک
اور جہاں تک مل کر اس خطرے سے نمٹنے کا تعلق ہے تو برادرِ محترم مودی صاحب نے بھی صاف کہہ دیا ہے کہ پاکستان سے مل کر تاریخ کا دھارا بدلنا چاہتے ہیں‘ مبارک ہو‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کر رہے تھے۔
پاکستان سے مل کر تاریخ کا دھارا
بدلنا چاہتے ہیں: نریندر مودی
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ''پاکستان سے مل کر تاریخ کا دھارا بدلنا چاہتے ہیں‘‘ جبکہ پاکستان کے جغرافیے کا دھارا پہلے ہی بدل چکے ہیں بلکہ اس کے دریائوں کا دھارا بھی مکمل طور پر بدلا جا چکا ہے اور اب وہ ہاتھ لگا لگا کر دیکھ رہا ہے اور پاکستان سے مل کر کا مطلب ہے میاں نواز شریف سے مل کر‘ کیونکہ ہماری نظر میں وہی ہماری طرف محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ دوسرے ادارے تو میری طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے قصائی بکرے کو دیکھتا ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ میری تو قربانی بھی جائز نہیں‘ اور دھارا بدلنے کا آسان نسخہ میں نے گزشتہ ملاقات کے دوران اُن کے کان میں پھونکا بھی تھا جس پر پاکستانی میڈیا نے طرح طرح کے اندازے لگانا شروع کر دیے اور بات کا بتنگڑ بنا کر رکھ دیا جبکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ ہماری زبان نواز شریف اور ان کی زبان ہم بہت اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اور تحائف کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا ہے جبکہ وہ ہمارے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے بھی بہت بے چین ہیں۔ آپ اگلے روز نئی دہلی میں بھارتی بحریہ کے افسروں سے خطاب کر رہے تھے۔
کراچی آپریشن کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے:خورشید احمد شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ ''کراچی آپریشن کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے‘‘ یعنی سیاستدانوں کو خواہ مخواہ پریشان نہ کیا جائے کیونکہ اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ ہرگز نہیں نکلتا چنانچہ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ حکومت کے ساتھ ڈیل ہو گئی ہے اور اب ماشاء اللہ کسی کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہے اور اتفاق سے دبئی میں زرداری صاحب کا چیک اپ بھی مکمل ہو گیا ہے اور اب وہ وزیر اعظم کی خصوصی دعوت پر واپس پاکستان تشریف لا رہے ہیں اور اُمید ہے کہ ہوائی اڈے پر ڈاکٹر عاصم حسین بھی ان کا استقبال کریں گے بلکہ دیگر شرکاء جن میں ہر دوسابق وزرائے اعظم اور رحمن ملک وغیرہ شامل ہیں‘ انہیں بھی اس افہام و تفہیم کی تفصیلات سے باقاعدہ آگاہ کر دیا گیا ہے کہ مطمئن رہیں‘ کچھ بھی نہیں ہو گا بلکہ شرجیل میمن اور دیگر معززین جو ایک عرصے سے امارات وغیرہ میں فروکش ہیں‘ وہ بھی انشاء اللہ بہت جلد واپس آنا شروع ہو جائیں گے اور جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے تو نیب اور سندھ پولیس دیکھتے ہی دیکھتے اس کا قلع قمع کر دیں گی اور اپنی شاندار روایات کو قائم رکھیں گی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب لاہور سے اشاعت پذیر ہونے والے ماہ ناموں ''فانوس‘‘ اور ''ادب دوست‘‘ میں شائع ہونے والی جناب احمد صغیر صدیقی کی غزلوں میں سے چند شعر:
ہم ایک دوسرے سے کس قدر لگے ہوئے تھے
جو میرے پھل تھے‘ ترے پیڑ پر لگے ہوئے تھے
زمینِ عشق میں پھولوں کی طرح تھے ہم لوگ
اِدھر لگے ہوئے تھے‘کچھ اُدھر لگے ہوئے تھے
خبر بھی تھی کہ زمانہ محبتّوں کا نہیں
پہ ہم اسی میں بہت بے خبر لگے ہوئے تھے
قیدِ تقدیر سے نہیں نکلے
کام تدبیر سے نہیں نکلے
ہم بھی منتر پڑھے گئے یونہی
وہ بھی تصویر سے نہیں نکلے
خواب ہی میں رُکے رہے ہم بھی
تم جو تعبیر سے نہیں نکلے
ہم لگے ہیں نکالنے میں اُنہیں
شعر جو میر سے نہیں نکلے
البتہ ''فانوس‘‘ میں شائع ہونے والی میری دونوں غزلوں کا ایک ایک شعر غلط چھپ گیا ہے‘ پہلا شعر تھا ؎
پہنچ گئے ہیں کہاں سے کہاں تک اہلِ رضا
میں آج بھی ترے انکار پر رُکا ہوا ہوں
اس کے پہلے مصرع میں اہلِ رضا کی جگہ اہلِ وفا چھپ گیا ۔ دوسرا شعرتھا ؎
دشت دریا سے آگے تھا کافی ظفر‘ میں
اب بھی حیران ہوں کس طرح چل رہا تھا
اس کا پہلا مصرع اس طرح چھپ گیا ہے ع
دشت و دریا سے آگے تھا کافی‘ ظفر‘ میں
آج کا مطلع
اب اور چاہتا کیا ہے مجھے بتا تو سہی
کہ میں نے تیرے تغافل کی ہر ادا تو سہی