عطاء الحق قاسمی کو فون کیا کہ چیئرمین پی ٹی وی بننے پر آپ کو مبارک باد دی جائے یا آپ سے اظہار ہمدردی کیا جائے کہ الحمرا اور آرٹس کونسل آپ کے مزاج سے زیادہ ہم آہنگ تھیں اور وہاں آپ نے کام بھی خاصا یاد گار کر رکھا ہے، اب اس ادارے کا کیا بنے گا؟ کہنے لگے، میری خدمات اسے اب بھی دستیاب رہیں گی۔ سچی بات ہے، اگر میاں صاحبان کے پاس پانچ پانچ، سات سات وزارتیں ہو سکتی ہیں تو عطا نے کیا قصور کیا ہے؟
جناب ڈاکٹر حسین ضیائی نے کراچی سے طرحدار شاعر سلیم کوثر کا ہدیۂ نعت میسج کیا ہے، شاعر کے لیے دعائے صحت کے ساتھ پیش خدمت ہے:
نوید بادِ بہاری کے دن ہیں اے مرے دل
عجیب شکرگزاری کے دن ہیں اے مرے دل
یہ جشنِ چشم منانے کی رُت ہے اے مری چشم
یہ تیری عرض گزاری کے دن ہیں اے مرے دل
غبارِ خواہش دنیا رہے نہ آئنوں پر
یہ تیری کارگزاری کے دن ہیں اے مرے دل
اگرچہ بوجھ گناہوں کا ہے بہت لیکن
ہوا پہ تیری سواری کے دن ہیں اے مرے دل
مجھے بھی اِذنِ حضوری ملا، مبارک ہو
دُعا کی سجدہ گزاری کے دن ہیں اے مرے دل
برطانیہ سے محبی منصور آفاق کراچی کے ایک شاعر کو ایوارڈ ملنے پر آزردہ تھے، حالانکہ بڑا یعنی کمالِ فن ایوارڈ فہمیدہ ریاض کو ملنے پر تو کم از کم انہیں خوش ہونا چاہیے تھا جبکہ ایک ایوارڈ کے مسعود اشعر بھی باقاعدہ مستحق تھے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کچھ مذہبی رہنمائوں کے برعکس ابھی ہمارے ہاں لبرل ازم کی گنجائش موجود ہے جبکہ یہ کسی سیاسی جماعت میں نظر آتا ہے نہ کسی سیاسی لیڈر میں۔ ایک پیپلز پارٹی سے اس کے ماضی کی بنا پر کچھ توقع تھی لیکن وہ بھی دائیں بازو ہی کی جماعت ہو کر رہ گئی ہے۔ تمام ایوارڈ یافتگان کو مبارک باد!
اب جناب کنول فیروز کے ماہنامے ''شاداب‘‘ میں شائع ہونے والے ہمارے شاعر دوست کرامت بخاری کے خط سے یہ اقتباس:
''...میں غریب بھی گھر بیٹھا ہوں اور کہنے کو گریڈ 21کا افسر ہوں۔ نہ سینیارٹی طے ہوتی ہے نہ ہی تنخواہ کے Arrearsدے رہے ہیں اور نہ ہی پوسٹنگ۔ یہ بھی نہیں بتایا جا رہا کہ میرا قصور کیا ہے۔ تقریباً تین سال سے زائد ہو گئے، او ایس ڈی ہوں۔ نیب زدہ لوگ ترقیاں حاصل کر رہے ہیں اور میرے سے جونیئر آفیسرز تمام سینئر پوسٹوں پر تعینات ہیں۔ نہ میرٹ نہ اصول نہ کوئی انصاف۔ بس طاقت حق ہے جس کے پاس طاقت ہے وہ حق لے لے ورنہ روتا رہے‘‘۔
کرامت بخاری کا اور کوئی قصور ہو نہ ہو، سب سے بڑا یہ ہے کہ وہ اپ رائٹ آدمی ہے، اور طارق ملک، نیکوکارا اور ڈاکٹر ظفر الطاف جیسے اپ رائٹ افسروں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے، آپ کس کھیت کی مولی ہیں؟ ہیں جی؟
اور اب اسی پرچے میں شائع ہونے والی آفتاب خان کی یہ غزل:
یہ اقتدار کی طاقت نہ مار ڈالے کہیں
اِن اہلِ حرص کو دولت نہ مار ڈالے کہیں
زبورِ وقت کی قرأت بھی احتیاط سے کر
کہ معبدوں کی امامت نہ مار ڈالے کہیں
میں بولتا ہوں بہت سچ، مگر یہ خطرہ ہے
مجھے کسی کی شہادت نہ مار ڈالے کہیں
میں اپنے حق میں دلائل تلاش کرتا ہوں
مجھی کو میری وکالت نہ مار ڈالے کہیں
کھڑے ہیں راہ میں کتنے ہی خیر خواہ مرے
مجھے ادب کی سیاست نہ مار ڈالے کہیں
ہر ایک بات کا مطلب نکالتا ہوں غلط
مجھے یہ تلخ طبیعت نہ مار ڈالے کہیں
بہت زمانے ہوئے گھر کا راستہ بھولے
یہ ہجرتوں کی مسافت نہ مار ڈالے کہیں
وہ مُشکِ نافہ کی جانب قدم بڑھانے لگا
غزالِ دشت کی وحشت نہ مار ڈالے کہیں
جو آفتاب کو دیکھا تو دم بخود کیوں ہو
تمہاری سوچ کو حیرت نہ مار ڈالے کہیں
ہمارے صحافی بھائی جناب عرفان صدیقی جو پہلے وزیر اعظم کے معاون تھے، اب مشیر ہو گئے ہیں اور ان کا رُتبہ وفاقی وزیر کے برابر ہو گیا ہے، انہیں بھی مبارک باد!
گورنمنٹ کالج اوکاڑہ کے لیکچرار اور خوبصورت شاعر کاشف مجید، جن کی توصیف اور اعتراف میں پہلے بھی کر چکا ہوں، نے فون پر بتایا کہ اپنی تازہ غزل اگر اجازت ہو تو بھجوا دوں؟ میں نے کہا، ڈھیر ثواب۔ اوکاڑہ کو بدنام کرنے کے لئے ایک میں ہی کیا کم تھا کہ علی اکبر ناطق اور محمد حنیف نے بھی اپنا حصہ ڈال دیا، اور اب آپ اس کارِ خیر میں جُت گئے ہیں، چلیے ع
ایک بیداد گر رنج فزا اور سہی
ان کے غزل کے چند شعار:
تجھ سے منہ موڑا یا آخر ترا انکار کیا
میں نے رونے کے لیے راستہ ہموار کیا
مارنا چاہتا ہے وہ مجھے تنہائی کی موت
اُس نے مجھ پر نہیں سائے پہ مرے وار کیا
قطرۂ اشک مرے جیسے ہزاروں ہیں یہاں
تیرا احسان مجھے تو نے نمودار کیا
وہ محبت کی ہو یا مرگِ محبت کی ہو
جس کہانی میں کیا، مرکزی کردار کیا
مرنے والا ہے کوئی مجھ میں پرندے کی طرح
میں نے بروقت درختوں کو خبردار کیا
آج کا مطلع
بات کرنے کی اجازت بھی نہیں چاہتے ہم
تھی جو حاصل وہ سہولت بھی نہیں چاہتے ہم