برادر محترم میاں نوازشریف صاحب‘ دام اقبالکم
السلام علیکم۔ اُمید ہے کہ آپ اپنی بہترین صحت سے لُطف اندوز ہو رہے ہوں گے اور اللہ کا شکر ہے کہ میں بھی چاق و چوبند اور صحت مند ہوں۔ سندھ کابینہ کے اجلاس بھی یہیں منعقد ہوتے ہیں اور میرا دل خوب لگا رہتا ہے جبکہ آپ کی طرف سے بھی اچھی خبریں آتی رہتی ہیں کہ بالآخر ہمت کر کے اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے ہیں اور سب کو اوقات میں رکھا ہوا ہے۔
کچھ عرصے سے ملک عزیز سے خاصی مزاحیہ قسم کی خبریں آ رہی ہیں جنہیں میڈیا بھی خوب ہوا دے رہا ہے حالانکہ سارا کچھ پلان کے عین مطابق ہو رہا ہے اور جن لوگوں کو بظاہر پریشان کیا جا رہا ہے وہ بھی خوب مزے میں ہیں جبکہ کچھ حلقے اپنے طور پر مطمئن ہیں کہ ان پر یکے بعد دیگرے خوب ہاتھ ڈالا جا رہا ہے لیکن اگر وہ تھوڑا سا بھی غور کریں اور حال ہی میں گزرنے والے واقعات کی کڑیاں ملائیں تو انہیں بغلیں بجانے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں کیونکہ مقدمات چاہے لاہور میں ہوں‘ چاہیں کراچی میں‘ انہیں تیار تو بہرحال پولیس ہی نے کرنا ہے اور پیروی عدالت میں پراسیکیوشن کے ہی ذمے ہے۔ چنانچہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ عزیزی ڈاکٹر عاصم کے کیس میں پہلے تفتیشی اور پھر سپیشل پراسیکیوٹر کو راتوں رات تبدیل کر دیا گیا‘اٹھارہویں ترمیم کے تحت جس کا صوبائی حکومت کو پورا پورا حق حاصل ہے۔ دراصل تو ایسے اقدامات کے ذریعے بعض خاص حلقوں کو پیغام پہنچانا مقصود تھا کہ اتنا خوش ہونے کی ضرورت نہیں کہ آخر ثبوت تو پولیس نے اکٹھا کرنے اور پراسیکیوشن نے عدالت میں پیش کرنا ہیں اور ماشاء اللہ یہی صورت حال پنجاب میں بھی ہوئی کیونکہ پنجاب پولیس بھی خاصی فرض شناس واقع ہوئی ہے۔
اگرچہ یہاں کراچی اور وہاں پنجاب میں کچھ پوشیدہ قوتوں نے نیب کا ٹینڈوا دبا رکھا ہے اور بظاہر وہ کافی پھرتیاں دکھا رہی ہے لیکن ماشاء اللہ ہونا ہوانا تو یقیناً کچھ نہیں ہے، چنانچہ نیب کی حراست یا جیل میں رہ کر مقدمہ واروں کی صحت پہلے سے بہت بہتر ہو گئی ہے حتیٰ کہ ایان علی کا تو اتنا وزن بڑھ گیا ہے کہ اُسے ڈائٹنگ وغیرہ کا سہارا لینا پڑا جبکہ اُمید ہے کہ آپ کی تھوڑی دلچسپی لینے سے ہی اس کی گلوخلاصی بہت جلد ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ عزیزان گرامی منور علی تالپور‘ سید یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور رحمن ملک وغیرہ بھی اس سلسلے میں پوری طرح مطمئن ہیں۔
اُدھر تجزیہ کاروں نے شور مچا رکھا ہے کہ آپ جنرل راحیل شریف کو توسیع دینا چاہتے ہیں۔ میں تو فوراً ہی تاڑ گیا تھا کہ یہ خبر آپ نے خود ہی اڑائی ہے تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ آپ انہیں واقعی توسیع دینا چاہتے ہیں حالانکہ آپ کے فہم و دانش سے اس کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی کہ آپ اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مارنے پر تیار ہو جائیں گے۔ آپ کے اس دور اندیشانہ اقدام سے آپ کے لیے بہت آسان ہو گیا ہے کہ توسیع کے معاملے کو یہ کہہ کر گول کر دیں کہ جنرل صاحب خود ہی توسیع لینا نہیں چاہتے اور اُمید ہے کہ اُن کی جگہ آپ نے کسی بہتر آدمی کا انتخاب کر لیا ہو گا۔
مُجھ پر آپ کا خصوصی شکریہ بھی واجب ہے کہ سندھ میں رینجرز کے معاملے پر سخت موقف اختیار کرنے کی وجہ سے ہماری پارٹی کے تنِ مُردہ میں جان پڑ گئی ہے اور اس کی مقبولیت کا گراف نئی بلندیوں کو چُھونے لگا ہے جبکہ میں تو آپ کی معاملہ فہمی کا شروع سے ہی قائل چلا آ رہا ہوں کہ مُشکل سے مُشکل مسئلے کو بھی آپ اپنی معروف ذہانت سے کس طرح چُٹکیوں میں حل کر لیتے ہیں۔ تاہم اگر ذرا مزید پکڑ دھکڑ ہو جائے تو پارٹی کے حق میں بھی بہتر ہو گا کیونکہ ہم تندیٔ باد مخالف سے گھبرانے والے نہیں ہیں کہ یہ تو ہمیں اُونچا اڑانے ہی کے لیے چلتی ہے۔
آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ عوام کو زیادہ سر پر چڑھانے کی بجائے انہیں ''آنے‘‘والی جگہ پر ہی مستقل طور پر رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ اگر ذرا سی بھی خوشحالی سے دوچار ہونگے تو انہیں بدہضمی شروع ہو جائے گی اور ہمیں ہی آنکھیں دکھانا شروع کر دیں
گے اور سالہا سال کا بنا بنایا کھیل بگڑ کر رہ جائے گا۔ چنانچہ اس سلسلے میں سب سے بڑا خطرہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ ہے جو اگر کامیابی سے مکمل ہو گیا تو عوام کا دماغ خراب کرنے کے لیے یہی کافی ہے۔ چنانچہ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اس کے روٹ وغیرہ اور دیگر معاملات کے حوالے سے اسے متنازعہ بنانے میں آپ نے زبردست کامیابی حاصل کر لی ہے۔ آپ تو مجھ سے کہیں بہتر جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اگر کالا باغ ڈیم بھی بن جاتا تو عوام کا دماغ ہی ٹھکانے پر نہیں رہنا تھا۔ بہرحال اس معاملے کو جتنا بھی طول دیں گے اور چھوٹے صوبوں سے لارا لپّا لگائے رکھیں گے اتنا ہی سود مند ثابت ہو گا اور اللہ میاں کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتے۔
مودی صاحب کے ساتھ ملاقات کی خفیہ رپورٹ تو آپ نے ازراہ کرم مجھے پہنچا دی تھی‘ تاہم آئندہ بھی پُھونک پُھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے، اگرچہ یہ بات باعثِ اطمینانِ قلب ہے کہ آپ اور مودی صاحب ایک ہی پیج پر ہیں اور اُن کے ساتھ اپنے کاروباری معاملات باقاعدہ استوار رکھتے ہیں اور اس فرمان حق پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ رزق کے دس میں سے نو حصے کاروبار اور تجارت میں ہیں اور اس فرمان پر عمل کرنے سے ہی آپ کے کاروبار میں اللہ میاں نے اتنی برکت ڈال دی ہے کہ اس پر میرے جیسے بھی رشک کرتے ہیں۔ تاہم آپ کی خوشحالی بھی میری ہی خوش حالی ہے اور این آر او نے ہم دونوں کو محبت و اخوت کے جس مضبوط رشتے سے باندھ رکھا ہے‘ اس کی مثال شاید دُور دُور تک نہ مل سکے۔
میرا دل یہاں اس لیے بھی لگا ہوا ہے کہ سندھ حکومت کے بعض وزراء اور متعدد سیکرٹری صاحبان یہاں پر قیام پذیر ہیں‘ بلکہ کئی حضرات نے تو ہوا کا رُخ دیکھ کر بہت پہلے سے ہی یہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں جو میری طرح بغرض علاج وغیرہ یہاں آئے تھے اور ابھی ان کے ڈاکٹر اُن کی واپسی کی اجازت نہیں دے رہے جبکہ میرا معالج تو واپسی کا خیال بھی دل میں لانے سے روکتا ہے‘ اگرچہ میں ہٹّا کٹّا ہوں لیکن اس کی دلیل یہ ہے کہ وہاں واپس جاتے ہی مجھ پر کسی عجیب و غریب بیماری کا حملہ ہو جائے گا‘ چنانچہ میری اور آپ کی جان چونکہ بہت قیمتی ہے کیونکہ ہم ابھی ملک و قوم کی جی بھر کے خدمت نہیں کر سکے حالانکہ یہی ہم دونوں کی زندگی کا واحد مقصد ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں حاسدوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین! بلکہ زیادہ بہتر ہو گا کہ گاہے بگاہے کالے بکرے کا صدقہ دیتے رہیں بلکہ اپنے پیر کے ساتھ بھی رابطہ مستقل رکھیں‘ نہ صرف یہ بلکہ میرے پیر کی ضروریات کا بھی خیال رکھیں تاکہ ہر آتی بلا ٹلتی رہے۔
بھابھی صاحبہ کی خدمت میں سلام و نیاز اور عزیزان کو پیار‘ جن میں سے اگر کوئی ملک میں موجود ہو۔ اسحاق ڈار اور چودھری نثار احمد صاحب کے لیے سلام محبت۔
آپ کا بھائی آصف علی زرداری
آج کا مطلع
ملوں اس سے تو ملنے کی نشانی مانگ لیتا ہوں
تکلف برطرف، پیاسا ہوں، پانی مانگ لیتا ہوں