خُوبصورت بھارتی شاعر رفیع رضا جو ایک عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں‘ کے بارے میں ایک صاحب مجھے بتا رہے تھے کہ وہ سوائے آپ کے کسی کو شاعر نہیں مانتے‘ حتیٰ کہ وہ تو خدا کو بھی نہیں مانتے ‘ پتا نہیں آپ کو کیسے مان رہے ہیں۔ ان کا ایک شعر دوبارہ سُن لیجیے ؎
لوٹ آیا ہوں سفر سے تو وہی دیکھوں گا
جو کچھ اس شہر کے اندر مرا دیکھا ہُوا ہے
سو‘ رفیع رضا سے درخواست ہے کہ ساتھ ساتھ خدا کو بھی مان لیں‘ بڑی مہربانی ہو گی۔ اور اگر میں نے واقعی ایسا کچھ کہا ہے کہ مجھے ماننے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں ہے تو مجھے ایسا کرنے کی توفیق خُدا ہی نے دی تھی۔ پہلے خدا تعالیٰ کے بارے میں میں بھی متذبذب تھا‘ لیکن پھر میں نے سوچا کہ خُدا کے ہونے کی گواہی تو میرے رسولؐ نے بھی دی ہے تو میں اُس سے منکر کیسے ہو سکتا ہوں۔میراصادق رسولؐ تو سچ بولتا ہے۔ تاہم اُسی زمانے کا ایک شعر ہے ؎
پہنچ گئے ہیں کہاں سے کہاں تک اہلِ رضا
میں آج بھی ترے اِنکار پر رُکا ہُوا ہوں
بہرحال‘ میں یہاں خدا کا وجود ثابت کرنا نہیں چاہتا اور یہ میرا کام بھی نہیں ہے‘ اس لیے کوئی اور بات کرتے ہیں۔ مثلاً دُھند پر گفتگو ہو سکتی ہے جس نے ایک بڑے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ پھر خیال آتا ہے کہ خُدا نے بھی تو اپنے اردگرد اتنی دُھند پھیلا رکھی ہے جو کسی کو نظر نہیں آتا۔ سو‘ خدا سے کوئی مفر نہیں کہ جو بات بھی کرو‘ اُس میں اُس ذات کا ذکر آ جاتا۔ حفیظ جالندھری نے یہ شعر ؎
حفیظ اہل جہاں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
شاید اس حوالے سے نہ کہا ہو‘ لیکن بات سچی ہے کہ خدا کے علاوہ اُس کے بندے بھی اپنے آپ کو زوروں سے منوائیں‘ تب ہی کوئی مان کر دیتا ہے۔
اللہ میاں کے حوالے سے سب سے بڑی سہولت یہ ہے کہ اس کے ساتھ لاڈ پیار‘حتیٰ کہ بے تکلفانہ رویّہ بھی روا رکھا جا سکتا ہے اور صوفیائے کرام نے تو قدم قدم پر ایسا کیا بھی ہے۔ بُلھے شاہ ہی کو دیکھ لیجیے:
بُلھیا پی شراب تے کھا کباب
ہیٹھ بال ہڈاں دی اگ
کر چوری تے بھن گھر رب دا
ایس ٹھگّاں دے ٹھگ نو ٹھگ
لیکن رسولِ اکرمؐ کے باب میں ادب اور احترام کے سوا کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مثلاً بقول علّامہ اقبال ع
با خُدا دیوانہ باش و با محمدؐ ہوشیار
رسولِ اکرمؐ کے حوالے سے یہ شعر بھی دیکھیے ؎
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گُم کردہ می آید جُنید و بایزید ایں جا
یاد رہے کہ ''تمجید‘‘ کے نام سے میرا ایک پُورا مجموعہ حمد پر مشتمل ہے جس میں 121حمدیں شامل ہیں اور جو علیحدہ تو نہیں چھپا لیکن میرے کلیّات ''اب تک‘‘ کی تیسری جلد میں موجود ہے اور جس میں اللہ میاں کے ساتھ تعلق اور لاتعلقی کو مختلف پیرایوں میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ واقعہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ سانگھڑ میں مقیم جدید لہجے کے بیحد خوبصورت شاعر اکبر معصوم نے ایک بار مجھ سے کہا کہ آپ کے کلام کا انتخاب ہونا چاہیے‘ میں نے کہا‘ آپ کر دیں۔ اس کے کچھ دن بعد موصوف کا فون آیا کہ میں نے ''تمجید‘‘ شروع کی تھی اور جو شعر
پسند آتا تھا اس پر نشان لگاتا جاتا تھا۔ کوئی50صفحے پڑھنے کے بعد میں نے دیکھا کہ کوئی شعر بھی ایسا نہیں تھا جس پر میں نے نشان نہ لگایا ہو۔ آپ کا انتخاب نہیں ہو سکتا۔ تاہم شاعر دلاور علی آزر نے ہمّت دکھائی ہے اور میری 101منتخب غزلیں ''ظفر یاب‘‘ کے نام سے شائع کر دی ہیں جن کے بارے میں آفتاب کا خیال ہے کہ اس سے کہیں بہتر انتخاب ہو سکتا تھا! اب ہمارے ایک اور شاعر دوست ادریس بابر نے اس کام کے لیے کمر کس لی ہے‘ دیکھیں وہ کیا گُل کھلاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی تحریر میں کہیں نہ کہیں خود ستائی کا پہلو بھی نکل آتا ہے۔ ایم ڈی تاثیر کا ایک خوبصورت شعر دیکھیے ؎
حنائے ناخنِ پا ہو کہ حلقۂ سرِ زلف
چُھپائو بھی تو یہ جادُو نکل ہی آتے ہیں
بہرحال‘ تمجید سے پہلے کوئی حمدوں کا مجموعہ میری نظرسے نہیں گزرا۔ اب اختر رضا سلیمی کی کتاب موصول ہوئی ہے جس کا تذکرہ جلد ہی پیش کروں گا۔یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کوئی سال بھر پہلے میں نے کراچی کے ایک رسالے کو ایک حمد بھیجی جسے چھاپنے سے ایڈیٹر نے انکار کر دیا۔ ان دنوں طالبان کا زور تھا‘ شاید ڈر گئے ہوں۔
میرتقی میر کا مشہور شعر ہے ؎
لائے اُس بُت کو التجا کر کے
کُفر ٹُوٹا خُدا خُدا کر کے
عرض کرنے کا مقصد ہے کہ ہمارے اکثر کام جب خدا خدا کر کے ہی سرانجام پاتے ہیں تو ہم خُدا کا انکار کس مُنہ سے کریں۔ پھر‘ خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ مخلوقِ خدا نے ہمیں چاروں طرف سے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ خُدا کا انکار کر کے کسی طرف سے راستہ ہی نہیں ملتا کہ جہاں سے آدمی بآسانی نکل ہی جائے۔ اس لیے مجبوری بھی ہے اور ہم کوئی ایسا ویسا کام بھی کرتے ہیں تو خدا کا نام لے کر ہی۔ خُودی کا لفظ بھی شاید خدا ہی سے نکلا ہے‘ اور اگر خود سے بھی نکلا ہو تو بھی بندے اور خدا کا تعلق واضح ہو جاتا ہے ۔ اوراب آخر میں یہ حمد ؎
کھیت میں ہے نہ تھان پر ہے تُو... کس انوکھی اُڑان پر ہے تُو
ساتواں تو میں ڈھونڈ آیا ہوں ...کون سے آسمان پر ہے تُو
حمد کرتے ہیں رات دن گونگے ...توتلوں کی زبان پر ہے تُو
میں کسی دن مُکر بھی سکتا ہوں ...خوش جو میرے بیان پر ہے تُو
جسم جلنے لگا جُدائی میں... اک مصیبت سی جان پر ہے تُو
سر پہ دُنیا کے سائبان ترا...اور کہیں سائبان پر ہے تُو
جس نشاں تک بھی میں پہنچتا ہوں...اُس سے اگلے نشان پرہے تُو
دل سے باہر قطار میں ہوں لگا...دستیاب اِس دُکان پر ہے تُو
کس طرح تجھ سے بچ کے جائے ظفرؔ...راستے میں مچان پر ہے تُو
آج کا مطلع
پھر وہی اپنے نہ ہونے کا اشارہ ہونا
اُسی بے سود محبت کا دوبارہ ہونا