"ZIC" (space) message & send to 7575

ٹوٹے

دائمی حکم امتناعی
نیب راولپنڈی ریجن کے ترجمان نے چیئرمین قمر زمان چوہدری کو رپورٹ دی ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے خلاف کوئی ایکشن لینے سے معذور ہیں کیونکہ انہوں نے لاہور ہائیکورٹ سے حکم امتناعی لے رکھے ہیں۔ مسٹر چوہدری کے سالانہ دورے کے دوران انہیں بتایا گیا کہ شریف برادران نے دوبارہ حکم امتناعی حاصل کر لیا ہے جبکہ یہ حکم امتناعی 2007ء سے چلا آ رہا ہے جب سپریم کورٹ نے انہیں ملک میں واپس آنے کی اجازت دی تھی جبکہ ان کے خلاف تین کرپشن ریفرنس اور چھ انکوائریاں ان کے اور ان کے لواحقین کے خلاف احتساب عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ واضح رہے کہ یہ معزز افراد گزشتہ20سال سے ان حکم ہائے امتناعی کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں اور کوئی کارروائی نہیں ہونے دے رہے۔ معزز چیف جسٹس پاکستان ہر تیسرے دن کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا ناسور قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں اور یہ امر بھی ان کے نوٹس میں ہو گا کہ کس دیدہ دلیری سے انصاف کی راہ میں گزشتہ 20 سال سے رکاوٹ پیدا کی جا رہی ہے بلکہ قانون کا دیدہ دانستہ مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر شرفا واقعی بے گناہ ہیں تو انہوں نے حکم امتناعی کا سہارا کیوں لے رکھا ہے۔ نیز کیا سپریم کورٹ محسوس نہیں کرتی کہ اس بدنامِ زمانہ حکم امتناعی کے لیے کوئی مدت مقرر 
ہونی چاہیے تا کہ اسے دائمی قرار دیتے ہوئے اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی روش کو روکا جا سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نیب اگر اس معاملے میں واقعی مخلص ہے تو حکم امتناعی ختم کروانے کے لیے چارہ جوئی کیوں نہیں کرتی؟ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کو اس اندھیر گردی کا از خود نوٹس لینا چاہیے کہ اس کی ناک کے عین نیچے کیا کچھ ہو رہا ہے اور یہ کہ کرپشن کے خلاف بار بار بیان دینا ہی کافی نہیں ہے۔
لطف یہ ہے کہ یہ دونوں معززین صدر مملکت سمیت خود بھی اکثر و بیشتر بیان دیتے پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ برادرِ خورد کئی بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اگر ان کے خلاف ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے تو ان کا نام بدل دیا جائے حالانکہ اگر انہوں نے مقدمات کو چلنے ہی نہیں دینا اور ان میں جنبش ہی نہیں ہونے دینی تو یہ ثابت کیسے ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں اگلے روز وزیر اعظم بڑے دھڑلے سے فرما رہے تھے کہ ملک سے لوٹا ہوا پیسہ واپس آنا چاہیے جبکہ صاحب موصوف کو اپنی چارپائی کے نیچے بھی ڈانگ پھیرنی چاہیے۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
اُس سے بھی ہوشیار کہ یہ چور چور کا
کوٹھے پہ چڑھ کے شور مچاتا بھی چور ہے
مُفت کا واویلا
سانحۂ چارسدہ کے بعد ایک بار پھر ہر طرف ہا ہا کار مچی ہوئی ہے کہ اگر ایکشن پلان پر عمل ہوا ہوتا تو پے در پے ہونے والے یہ سانحات نہ ہوتے، لیکن حکومت لب خدمتی کے علاوہ ٹس سے مس ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن منہ پھاڑ پھاڑ کر یہ مطالبہ کرنے والے حکومت کی مجبوریوں کو کیوں نہیں سمجھتے، کیونکہ یہ ایکشن پلان دہشت گردوں کے خلاف نہیں، خود حکومت کے خلاف ہوگا۔ سیدھی سی بات ہے، ہزاروں مدرسے جن کے خلاف ایکشن لینے کا کہا جا رہا ہے وہی تو حکومت کا ووٹ بینک ہیں اور انتخابات کے دنوں میں کنویسنگ وغیرہ میں بھی حکومتی پارٹی کے ہم رکاب ہوتے ہیں۔ وہ تو 
آرمی چیف کو آرمی پبلک سکول کی قیامت خیز تباہی دیکھ کر آپریشن کا آغاز کرنا پڑا ورنہ حکومت تو ان کے ساتھ مذاکرات ہی کو طول دئیے چلی جا رہی تھی؛ حالانکہ ان نام نہاد مذاکرات میں بھی طالبان کا کوئی نمائندہ شریک نہ تھا اور حکومت خود ہی ایک طرح سے ان کی نمائندگی بھی کر رہی تھی۔ اس لیے نہ حکومت کو اپنے پائوں پر کلہاڑا مارنے کے لیے کہا جائے اور نہ اس نے مارنا ہے اور جب تک حکمرانوں کی اپنی سکیورٹی کو کوئی خطرہ درپیش نہ ہو، وہ یہ گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کرے گی۔ حکام کے ساتھ دہشت گردوں کے روابط سے کون واقف نہیں اور اب تو یہ حضرات اس سے انکار بھی نہیں کرتے؛ چنانچہ جب تک انہیں یہ سہولت حاصل ہے کہ پنجاب ان حملوں سے محفوظ ہے کہ پنجاب ہی ان کے نزدیک اصل پاکستان ہے، تب تک انہیں کچھ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے، ورنہ اِلّا ماشاء اللہ ان کے سہولت کار بھی یہ خود ہی ہیں اور کبوتر کی طرح خطرے کے سامنے آنکھیں بند کر لینا ہی ان کے نزدیک ہر خطرے کا جواب بھی ہے۔ اس لیے قوم اور ملک کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے اور خواہ مخواہ حکومت کو کانٹوں پر گھسیٹنے سے پرہیز کرنا چاہیے، حکومت خود کشی نہیں کرے گی کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔
تعریف
ایک اخباری اطلاع کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے چارسدہ واقعہ پر جو مذمتی بیان دیا ہے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس کی تعریف کی ہے۔ کرنی بھی چاہیے تھی اور اتنے قریبی تعلقات کا تقاضا بھی یہی تھا اور یہی وجہ ہے کہ صاحب موصوف نے بھارتی وزیر دفاع کی کھلی دھمکی کے بارے میں ان سے کوئی بات نہیں کی حالانکہ ایک ٹی وی چینل کے شرفا نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنے وزیر دفاع کو گرفتار کرے۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم نے اس اطلاع کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا جس کے مطابق بھارتی قونصل خانے نے یہ حملہ کروانے کے لیے 30لاکھ دئیے ہیں۔ شاعر نے کسی ایسے ہی موقعے کے لیے کہا تھا کہ ؎
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
اچھا ہوا وزیر اعظم کے صاحبزادے نے یہ وضاحت کر دی کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر تجارت کر رہے ہیں اور نہ ہی وہاں ان کے اثاثے ہیں اور یہ بھی کہ ان سارے معالات میں جندل کا نام بھی خواہ مخواہ لیا جا رہا ہے۔ اور اس بات کی بھی تردید کی جا رہی ہے کہ شاہ سلمان کے ساتھ فوٹو سیشن میں سلمان شہباز کی تصویر کیسے آ گئی، حتیٰ کہ وزیر اعظم نے اس کی انکوائری کا بھی حکم دے دیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
آج کا مقطع
عافیت کوش ہوں دریا کی روانی پہ، ظفرؔ
موج ہونے کا ہی مطلب ہے کنارا ہونا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں