پاکستان محفوظ اور پُراعتماد
ملک ہے: نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''پاکستان محفوظ اور پُر اعتماد ملک ہے ‘‘ جبکہ پُر اعتماد ہونے کی ایک مثال تو یہ ہے کہ ایکشن پلان کے مسئلے کو ہم نے اللہ میاں پر چھوڑ دیا ہے اور دہشت گردوں کے سہولت کار اگر واقعی گنہگار ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں سزا دینے کے لیے کافی ہیں جبکہ ہم تو خدائی کاموں میں دخل اندازی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اور جہاں تک پاکستان کے محفوظ ہونے کا تعلق ہے تو جو لوگ دہشت گردی کی زد میں نہیں آتے وہ واقعی محفوظ ہیں اور اس میںکھیت رہ جانے والوں کا معاملہ اس لیے اطمینان بخش ہے کہ ان کی وجہ سے پاکستان کی یک لخت بڑھتی ہوئی آبادی میں ایک توازن پیدا ہو گا اور آبادی کا بم جو پھٹنے والا ہے اس سے نجات حاصل ہو گی اور چونکہ یہ عمل اپنے آپ ہی رونما ہو رہا ہے اس لیے اس بم کو خودکش بم بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ پھٹنے کے بعد اس کا وجود اپنے آپ ہی ختم ہو جاتا ہے؛ چنانچہ یہ سلسلہ اگر جاری رہا تو آبادی کا مسئلہ اطمینان بخش طور پر اپنے آپ ہی حل ہوتا رہے گا‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''داخلی صورتِ حال کی بہتری سے معیشت بھی مستحکم ہو ئی‘‘ اول تو معیشت کو مستحکم کرنے کے لے برادرم اسحق ڈار ہی کافی تھے کیونکہ ان کی اور ہماری معیشی صورتِ حال بطور خاص کافی بہتر ہو چکی ہے بلکہ روز بروز بہتر سے بہترین ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پڑوسی ممالک میں پائیدار امن چاہتے ہیں‘‘ ماسوائے اپنے ملک کے کیونکہ اس سے آبادی میں تشویشناک
اضافے کا مسئلہ بخیرو خوبی سرانجام پا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اقتصادی راہداری اور تاپی منصوبوں سے خطے کے ممالک قریب آئیں گے‘‘ جبکہ سب سے زیادہ خوشی بھارت کے قریب آنے پر ہو گی‘ اگرچہ مودی صاحب کے دم قدم سے پہلے ہی کافی قریب ہیں‘ جلنے والوں کا منہ کالا۔ انہوں نے کہا کہ ''حقیقی تبدیلی اب آئی ہے‘‘ جو کہ ابھی پچھلے ہی دنوں میں یہ بیان دے کر کہ پاکستان لبرل اور ترقی پسند ہوئے بغیر ترقی نہیں کر سکتا‘ مخالفین کے دانت کھٹے کر دیئے ہیں‘ تاہم دائیں بازوں سے تعلق رکھنے والے ساتھی بددل نہ ہوں کیونکہ وہ بھی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ میرا تو بایاں بازو کام ہی نہیں کرتا جبکہ دایاں ہاتھ مجھے اس لیے بھی عزیز ہے کہ ماشاء اللہ کھانا اسی سے کھاتاہوں اور بائیں ہاتھ سے کام اس وقت لیتا ہوں جب دائیں ہاتھ سے کھاتاتھک جائوں اور اب اللہ میاں کی یہ حکمت بھی سمجھ میں آئی ہے کہ اس نے آدمی کو دو ہاتھ کس لیے دے رکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پائیدار ترقی کے لیے اصلاحات لائی گئی ہیں‘‘ اگرچہ یہ ترقی پہلے ہی اس قدر پائیدار تھی کہ سنبھالی ہی نہیں جا رہی تھی اور اس کا زیادہ تر حصہ جگہ کی کمی کی وجہ سے بیرون ملک رکھوایا جا رہا تھا اور اب ایمنسٹی بل پاس ہو جانے کے بعد شرفاء کو بلیک منی سفید کرنے کی سہولت حاصل ہو جائے گی اور اسی بہانے بیرون ملک میں محفوظ کی ہوئی دولت بھی واپس
لائی جا سکے گی اور یہ بک بک بھی ختم ہو جائے گی کہ آیا یہ رقم لوٹ مار کا نتیجہ تو نہیں‘ اوّل تو دولت لُوٹ مار کے بغیر حاصل اور جمع کی ہی نہیں جا سکتی جس کا یار لوگوں کو تلخ تجربہ پہلے ہی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''آذر بائیجان کے سرمایہ داروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے‘‘ کیونکہ اس سے جتنا سرمایہ بھی ملک میں آئے گا اس میں سے حصّہ بقدر جُثّہ ہم جیسے خدمت گاروں کو بھی مل جائے گا اور قرض اتارو ملک سنوارو جیسے تکلفات میں پڑنے کی ضرورت نہیں رہے گی جس کا ذائقہ ابھی تک زبان پر محسوس ہوتا ہے کیونکہ آدھا کام تو ہو ہی گیا تھا یعنی قرض تو نہیں اُترا تھا البتہ کچھ ضرورت مندوں کی قسمتیں ضرور سنور گئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان بے پناہ قدرتی وسائل اور منفرد محل وقوع کی وجہ سے سرمایہ کاری کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے‘‘ اور
چونکہ اُوپر سے ہی اللہ کا فضل کافی ہو جاتا ہے اس لیے بھی قُدرتی وسائل سے استفادہ کرنے کی نوبت نہیں آئی جو مکمل طور پر ہماری نظر میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''خصوصی تجارت کے لیے ٹیکس چھوٹ جیسی متعدد مراعات موجود ہیں‘‘ جس سے تاجر حضرات بھرپُور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور جس میں ہماری اپنی بھی کافی گنجائش نکل رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ''نیشنل ایکشن پلان کے بہترین نتائج حاصل ہوئے‘‘ اور لُطف یہ ہے کہ اس سلسلے میں جو کچھ حکومت نے کرنا تھایا 20میں سے اس کی جتنی بھی شقیں حکومت کے ذمے تھیں اُن پر عمل نہ ہو سکنے کے باوجود کافی کامیابی ہوئی ہے اور اب احساس ہوتا ہے کہ وہ شقیں ڈالنے کی آخر ضرورت ہی کیا تھی اور دہشت گردی کے واقعات میں جو اضافہ نظر آ رہا ہے وہ قدرتی طور پر ہونا ہی تھا کیونکہ ضرب عضب کی وجہ سے ان کا جو نقصان ہو رہا ہے اس کا بدلہ بھی تو انہوں نے لینا ہی ہے ‘ وہ تو شُکر ہے کہ حسبِ معمول وہ پنجاب کے ساتھ خصوصی رعایت روا رکھ رہے ہیں اور شہباز صاحب کے ساتھ کیے گئے وعدہ کا پاس اب تک کر رہے ہیں جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ آج کل وعدوں کا لحاظ کون رکھتا ہے جبکہ زرداری صاحب نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ وعدہ کوئی حدیث نہیں ہوتا جبکہ ہم نے انتخابات سے پہلے جو وعدے کیے تھے اگرچہ شومئی قسمت سے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوا‘ تاہم وہ ہماری اوّلین ترجیحات میں ضرور شامل ہیں اور ان ترجیحات کا حساب رکھنے کے لیے ہم نے ایک علیحدہ محکمہ قائم کر دیا ہے جس سے عوام پوری طور پر مطمئن ہیں اور سڑکوں پر نہیں آ رہے‘
جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میٹرو بس اور اورنج لائن کی وجہ سے ساری سڑکیں ہی اُدھڑی پڑی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''توانائی بحران ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں‘‘ لیکن جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ ملک میں جتنی بجلی موجود ہے‘ آبادی اس سے کہیں زیادہ ہے اس کے علاوہ واجبات کی عدم ادائیگی اور بجلی چوری بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں جو کہ بڑے بڑے صنعتکاروں اور تاجروں سے لاکھوں کروڑوں کے بل واجب الادا ہیں جن سے تقاضا کرتے ہوئے ویسے ہی شرم آتی ہے کہ سب اپنے ہی تو لوگ ہیں‘ انہیں کیا تنگ کیا جائے جبکہ بجلی چوری کی وجہ سے واپڈا کے اہلکاروں کی دال روٹی بھی چل رہی ہے جو مزے میں ہیں اور دن رات ہمیں دعائیں دیتے ہیں اور سچ پوچھیں تو ہمارا سارا کاروبار انہیں حاجتمندوں کی دعائوں کے سہارے ہی چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''افغانستان میں استحکام سے خطّے میں خوشحالی آئے گی‘‘ اور اگر کوشش کریں تو حضرات عبداللہ اور اشرف غنی بھی ہماری طرح خوش حال ہو سکتے ہیں کیونکہ جب سے ہم اور زرداری صاحب خوش حال ہوئے ہیں ‘ خطہ مالا مال ہو گیا ہے چنانچہ آدھا ملک اُنہیں دُعائیں دینے میں مصروف ہے اور آدھا ہمیں۔ آپ اگلے روز سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
بہتر ظفر یہی ہے کہ اب تم بھی لگ چلو
ساتھی جو تھے تمام تمہارے لگے گئے