"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں، متن اور منصور آفاق

تعلیم کا فروغ اولین ترجیح، وسائل میں
کمی نہیں آنے دیں گے:شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''تعلیم کا فروغ اولین ترجیح، وسائل میں کمی نہیں آنے دیں گے‘‘ سو، ہمارا کام ترجیحات طے کرنا ہے، اِن پر عملدرآمد ہونا صرف اور صرف اللہ میاں کے اختیار میں ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا،۔ ہم اپنی عاجزانہ کوششوں کا ثبوت دیتے رہتے ہیں اور وسائل میں سے اپنا حصہ نکالتے رہتے ہیں جبکہ بعض اوقات تو سارے وسائل ہی حصے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک قدرت ہی ہے، انہوں نے کہا کہ ''ترقی، خود کفالت کی منزل کے حصول اور شدت پسندی کے خاتمے کا واحد ذریعہ تعلیم ہے‘‘ چنانچہ ایکشن پلان وغیرہ پر عمل کرنے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اب یہ کام فروغِ تعلیم ہی کے ذریعے ہو گا جس کے لیے پالیسی بہت جلد وضع کر لی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''تعلیم پر سرمایہ کاری کرنے والی قوموں نے ترقی کا سفر تیزی سے طے کیا‘‘ لیکن ہم زیادہ تر تیزی میں یقین نہیں رکھتے کیونکہ اس سے ایکسیڈنٹ بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اسی اہمیت کے پیش نظر ہم نے پنجاب میں فروغِ تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنایا ہے‘‘ اور یہ ترجیح بھی ماشاء اللہ انہی ترجیحات میں شامل ہو گئی ہے جو ہم نے اپنی پہلی ترجیح کے طور پر قائم 
کی تھیں اور جنہیں سپردِ خدا کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نئی نسل کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے پروگراموں پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں‘‘ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو اورنج ٹرین جیسے منصوبے بھی دراصل فروغِ تعلیم ہی کے لیے ہیں تا کہ طلبہ اس پر سوار ہو کر بروقت سکول پہنچ جایا کریں اور مرغا بننے سے بچ جایا کریں۔ ورنہ ہر طرف بانگیں دیتے پھریں گے؛ حتیٰ کہ نہ تو دانہ دُنکا ہی دستیاب ہو گا اور نہ ہی کوئی مرغی ہاتھ لگے گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں مسلم لیگ(ن) کے ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
نجکاری اور اورنج لائن ٹرین کے مسائل مذاکرات سے حل کیے جائیں:پرویز اشرف
سابق وزیر اعظم اور پیپلزپارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ''پی آئی اے کی نجکاری اور اورنج ٹرین کے مسائل مذاکرات سے حل کیے جائیں‘‘ بلکہ میرے مسائل بھی مذاکرات ہی کے ذریعے حل کیے جا سکتے تھے جن کے لیے خواہ مخواہ تفتیشوں اور انکوائریوں وغیرہ کا تردد روا رکھا جا رہا ہے اور حساب کر کے مجھے بتایا جا سکتا تھا کہ میں نے کتنے پیسوں کی پلی بارگیننگ کرنی ہے اور کتنے میرے لیے حلال ہیں 
اور نیب والے کتنے پر راضی ہو جائیں گے وغیرہ وغیرہ، کیونکہ حکومت کو اس طرح اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور یہی وقت ہماری طرح کسی دیگر مفید کام پر خرچ کیا جا سکتا تھا لیکن افسوس کہ حکومت کو اپنے وقت کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں ہے جبکہ ہم اپنے دور میں ایک ایک لمحے کا حساب رکھا کرتے تھے اور کام میں غیر معمولی برکت بھی اسی وجہ سے آئی تھی، نیز جب حکومت کو اچھی طرح سے علم ہے کہ ان انکوائریوں اور مقدمات کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلنا ہے، تو خواہ مخواہ شریف آدمیوں کو پریشان کرنے سے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت خود اپنی دشمن آپ ہے‘‘ جو مفاہمتی فارمولے کا کچھ لحاظ نہیں رکھ رہی حالانکہ ہم اپنی جگہ پر قائم ہیں اور باہمی معاہدوں سے روگردانی کا سوچ بھی نہیں سکتے، اور اگر حکومت نے اسی طرح اپنی 
روش پر قائم رہنا ہے تو ہم سے بھی خیر کی کوئی اُمید نہ رکھے کہ آخر کل کو ہماری حکومت بھی آنی ہے اور یہ باریاں خود عوام نے مقرر کر رکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''بلاول بھٹو زرداری نے کمان سنبھالنے کے بعد پوری حکمتِ عملی تیار کر لی ہے‘‘ لیکن والد صاحب سے جان چھڑانے کی کوئی ترکیب ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی کیونکہ وہ اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ جب تک یہ آسیب سر پر موجود ہے، کسی کامیابی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی؛ حتیٰ کہ ہم جیسے انکلوں کی صورتِ حال زیادہ بدتر ہے، اور اوپر سے ان بزرگوں کے سوا پارٹی میں اب اور رہ ہی کون گیا ہے، اللہ معاف کرے، آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
محبّی منصور آفاق نے مجھ سے منسوب غزل کے ساتھ تین غزلیں اور بھی ارسال کی تھیں جو اسی زمین میں تھیں اور پوچھ بھیجا تھا کہ ان تینوں میں سے کون سے رنگ کو آگے بڑھائوں۔ وہ خود دانا و بینا ہیں، میں کیا عرض کر سکتا ہوں؛ تا ہم ان میں سے جو غزلیں مجھے بہتر لگی ہیں، وہ نیچے درج کر رہا ہوں اور تیسری غزل کی تخصیص یہی ہے کہ ان میں انگریزی کے الفاظ بطور خاص استعمال کیے گئے ہیں جو کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے؛ البتہ اگر وہ علاقائی زبانوں کا تڑکا لگاتے تو کوئی بات بھی تھی۔ بہرحال، وہ اچھی والی غزلیں پیش خدمت ہیں۔
لاہور مت بغیر اجازت قیام کر
جا داتا گنج بخش کو پہلے سلام کر
قوسِ قزح بکھیر دے گلیوں میں ہر طرف
میلادِ کن فکاں کا کوئی انتظام کر
اے کائنات چہرۂ گل سے نقاب کھینچ
تقریبِ رونمائی کا کچھ اہتمام کر
جی چاہتا ہے غیر کے دوزخ کو چھوڑ تو
میرے غریب خانے میں آ اور قیام کر
منصورؔ اس عشائے سیہ کی نماز میں
کوئی چراغ کوئی ستارہ امام کر
رنگت بدل درختوں کی‘ تو صبحِ بام کر
اے بادِ سبز خیز مسلسل خرام کر
کچھ بے نظیر یاد کے لمحے بھی پاس ہوں
جوبن کے کچھ جزیرے جیالوں کے نام کر
یہ جھوٹ اور فریب کی بستی لپیٹ دے
اے ساعتِ حساب یہ قصہ تمام کر
دل کیا کرے کہ تیرے قوانین سخت ہیں
اے آسمان تھوڑی سی ڈھیلی لگام کر
منصورؔ مجھ سے کہتا ہے احساسِ کمتری 
قیدی بنا پرندے، اڑانیں غلام کر
آج کا مقطع
ہوا نئی کوئی کروٹ بدل رہی ہے، ظفرؔ
بجھا ہوا یہ دیا پھر سے جلنے والا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں