وزیر اعظم کی جانب سے نیب کے خلاف
دیا گیا بیان محض دھوکا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے نیب کے خلاف دیا گیا بیان محض دھوکا ہے‘‘ حالانکہ میثاق جمہوریت میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی جبکہ میرے حوالے سے والد صاحب کا جو بیان سامنے آیا ہے کہ میں پارٹی کی تنظیم نو کرنے کا پورا اختیار رکھتا ہوں‘ اس میں ہرگز کوئی دھوکہ نہیں ہے کیونکہ حکم تو صاحبِ موصوف ہی کا چلے گا اور میں صرف اُن کا نام روشن کروں گا جو ماشاء اللہ پہلے ہی اس قدر روشن ہو چکا ہے کہ اس کی روشنی اور چمک دمک دُبئی سے لے کر نیو یارک تک پہنچی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت سندھ کو مفلوج کرانے کے لیے تمام آئینی حدود پار کی گئیں‘‘ حالانکہ ہم سابق دور میں بھی اور اب سندھ میں تمام آئینی تقاضے پورے کر رہے ہیں حتیٰ کہ ہمارے کافی وزیر اور بڑے افسر آئینی تقاضے پورے کر کے بیرون ملک بھی سدھار چکے ہیں جو واپس لائے جانے پر ہی آئیں گے۔ آپ اگلے روز نیو یارک میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
وزیر اعظم نے ایسی بات نہیں کی کہ
نیب کی کارروائی متاثر ہو۔ گورنر سندھ
گورنر سندھ عشرت العباد نے کہا ہے کہ ''وزیر اعظم نے ایسی بات نہیں کی کہ نیب کی کارروائی متاثر ہو‘‘ انہوں نے تو صرف اس پر احتجاج
کیا تھا کہ ایک بہت بڑے بزنس مین اور ان کے دوست کے خلاف کارروائی کی دھمکیاں دی گئی تھیں جو کہ سراسر زیادتی ہے کیونکہ بزنس مین کسی سے زیادتی نہیں کرتا جس کی زندہ مثال خود وزیر اعظم ہیں جو بزنس مین بھی ہیں اور کسی کو کچھ کہتے بھی نہیں جبکہ انہیں خود‘ اپنے وزیروں اور افسروں کے بارے میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ وہ پلی بارگیننگ کا سارا حساب کتاب کیے بیٹھے ہیں اور تھوڑا بہت نیب والوں کے ماتھے مار کر ایک بار پھر نہائے دھوئے گھوڑے ہو جائیں گے جیسے کہ منی لانڈرنگ کے بعد کالا دھن گورا ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نیب نے جن کے خلاف کارروائی کی‘ ان کی وزیر اعظم اور سندھ حکومت تک رسائی ہے‘‘ اسی لیے سندھ حکومت بھی درد ناک صورتِ حال سے دوچار ہے اور وزیر اعظم کی بھی بُھوک اُڑ گئی ہے جبکہ چیئرمین نیب کے اس بیان سے ان کی نیند بھی اُڑ چکی ہے کہ وہ لُوٹا ہوا روپیہ واپس لائیں گے حالانکہ وزیر اعظم صاحب کا دامن بالکل پاک ہے جس کی اطلاع میاں شہباز شریف دیتے رہتے ہیں۔آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
پاک بھارت تعلقات تجارت کے ذریعے ہی معمول پر رہ سکتے ہیں۔ بھارتی ہائی کمشنر
بھارتی ہائی کمشنر مسٹر گوتم بمبانوالہ نے کہا ہے کہ ''پاک بھارت تعلقات تجارت کے ذریعے ہی معمول پر رہ سکتے ہیں‘‘ اور وزیر اعظم نواز شریف کے علاوہ یہ بات اور کون سمجھ سکتا ہے جو خود بہت بڑے تاجر ہیں اور حکومت کو بھی بطور بزنس چلا رہے ہیں اور نہایت ایمانداری سے سمجھتے ہیں کہ کشمیر جیسے فروعی مسائل کو اس راہ کا روڑا نہیں بننا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں شِیو سینا نے کچھ کشمیریوں کی پٹائی وغیرہ کی اور یہ خبر ان کے ہائی کمشنر نے میڈیا پر چلا دی تو میاں صاحب نے انہیں سخت جھاڑ پلائی کہ آپ دونوں ملکوں کے تعلقات خراب کرنا چاہتے ہیں ؟ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب ہمارے مودی صاحب کی آنکھ کا تارا ہیں اور کوئی پروا کیے بغیر تعلقات کو مثالی بنانا چاہتے ہیں لیکن مقتدر قوتیں ان کی دال نہیں گلنے دیتیں جبکہ کچی دال پیٹ میں درد کا باعث ہوتی ہے اور اچھا ہے کہ وہ دال نہیں کھاتے‘ اسی لیے انہیں آٹے دال کا بھائو بھی معلوم نہیں ہے جو سُنا ہے کہ بہت جلد اُنہیں یاد دلایا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ عجائب گھر کا دورہ کر رہے تھے۔
وزیر اعظم کی گھبراہٹ دیکھ کر ان
پر ترس آتا ہے۔ ندیم افضل چن
پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ ''وزیر اعظم کی گھبراہٹ دیکھ کر ان پر ترس آتا ہے‘‘ اگرچہ زرداری صاحب کی حالت ان سے بھی گئی گزری ہے لیکن وہ چونکہ بسلسلہ علاج ملک سے مستقل طور پر باہر ہیں اورانٹرپول کے ذریعے ہی واپس لائے جا سکتے ہیں اس لیے ان کی گھبراہٹ بھی ملک میں آنے کے بعد ہی اثر کرے گی ؛چنانچہ اُن پر ترس بھی اُس وقت کے لیے اُٹھا رکھا گیا ہے بلکہ اس فہرست میں کئی دیگر حضرات بھی بہت جلد شامل ہو جائیں گے اور کافی رونق لگ جائے گی جبکہ بعض معاملات میں خاکسار کا نام بھی لیا جانے لگا ہے اور ہو سکتا ہے خود پر بھی ترس کھانا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ''مسلم لیگ ن کا احتساب پہلی دفعہ شروع ہوا ہے‘‘ جبکہ ہمیں تو ماشاء اللہ اس کی عادت پڑی ہوئی ہے اور زرداری صاحب جیل میں رہ کر ایک شاندار مثال بھی قائم کر چکے ہیں جس دوران ان کی دل پشوری کی وافر سہولتیں بھی بہم پہنچائی جاتی تھیں حتیٰ کہ میعاد پوری ہونے پر اُنہوں نے باہر آنے سے ہی انکار کر دیا تھا ۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
اور ‘ اب ہمارے کرمفرما ذاکر حسین ضیائی کی بھجوائی ہوئی دلاور علی آزر کی یہ غزل:
مخفی ہیں ابھی درہم و دینار ہمارے
مٹی سے نکل آئیں گے اشجار ہمارے
الفاظ سے کھینچی گئی تصویرِ دو عالم
آواز میں رکھے گئے آثار ہمارے
زنگار کیے جاتا ہے آئینۂ تخلیق
اور نقش چلے جاتے ہیں بیکار ہمارے
کچھ زخم دکھا سکتا ہے یہ روزنِ دیوار
کچھ بھید بتا سکتی ہے دیوار‘ ہمارے
کیوں شام سے ویران کیا جاتا ہے ہم کو
کیوں بند کیے جاتے ہیں بازار ہمارے
کیا آپ سے اب سختی ٔبیجا کی شکایت
جب آپ ہوئے مالک و مُختار ہمارے
تحسین طلب رہتے ہیں تا عمر کہ آزر
پیدا ہی نہیں ہوتے طرفدار ہمارے
آج کا مقطع
بھول جانا اُسے یکلخت‘ ظفر
تھا کوئی صدمۂ جاری جیسا