ہمیں فوج کی قربانیوں پر فخر ہے: آصف علی زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''ہمیں فوج کی قربانیوں پر فخر ہے‘‘ اگرچہ وہ خاکسار کی قربانیوں کا تو مقابلہ نہیں کر سکتی؛ تا ہم اگر کوشش کرتی رہے تو ان کے قریب قریب تو پہنچ سکتی ہے، نیز اُمید ہے کہ میرے سابقہ بیان کا مثبت اثر ہوا ہو گا جبکہ اس بیان سے مزید اور دلی یگانگت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور جس کا مطلب بھی یہی تھا کہ خاکسار کو ملک کی خدمت کا موقع دیا جائے جس کی اسے شدید ضرورت ہے، نہ صرف یہ بلکہ خاکسار کے جملہ رفقائے کرام بھی مزید خدمت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ پہلے والی خدمت سے بمشکل قرضے وغیرہ اتارے گئے ہیں کیونکہ سارے کے سارے معززین کا سابقہ دور میں بال بال قرضے میں بندھ گیا تھا اور اب تو نوبت تقریباً فاقہ کشی تک پہنچ چکی ہے جس پر ملک بھر کے عوام سراپا احتجاج ہیں اور اپنے محبوب رہنمائوں کو خاکسار سمیت، دوبارہ موقع ملنے کے متمنی ہیں اور جگہ جگہ مظاہرے بھی کر رہے ہیں۔ اگلے روز آپ کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا جو واقعی انہی کا تھا۔
میں لوٹ مار کرنے والوں
کو سیاستدان نہیں مانتا:خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ''میں لوٹ مار کرنے والوں کو سیاستدان نہیں مانتا‘‘ ماسوائے زرداری صاحب کے بلکہ وہ تو اللہ لوک ہیں اور سیاستدان ہیں ہی نہیں جبکہ ایسے پہنچے ہوئے بزرگ کو سیاستدان کہنا ویسے ہی بہت بڑی زیادتی ہے کیونکہ وہ قربانیاں دے دے کر ہی فقیر ہو گئے ہیں اور دبئی کا کرایہ بھی مانگ تانگ کر ہی گئے تھے، اور اب چونکہ اُن کے پاس واپسی کا کرایہ ہی نہیں ہے، اس لیے وہ واپس آنے سے بھی معذور ہیں حالانکہ انہیں وطن کی یاد بیحدستاتی ہے؛ لہٰذا پارٹی کا ارادہ ہے کہ چندا اکٹھا کر کے انہیں واپسی ٹکٹ کے پیسے بھجوائے جائیں تا کہ وہ واپس آ کر اپنی برکت سے عزیزی بلاول کا کام بھی آسان کریں اور اپنی کرشماتی شخصیت سے پارٹی کو بامِ عروج تک پہنچائیں جبکہ ان کی انکساریٔ طبع کے تقاضوں کے پیش نظر پوسٹروں اور دفاتر وغیرہ میں ان کی تصویر بھی نہیں لگائی جاتی کیونکہ ارادت کی وجہ سے ان کے عاشق عوام ان کی تصویر کو چوم چوم کر ہی اس کا ناس مار دیتے ہیں۔ آپ اگلے روز پنوں عاقل میں خطاب کر رہے تھے۔
کسی سیاسی جماعت میں جمہوریت
نہیں، خاندانوں کا قبضہ ہے:سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''کسی سیاسی جماعت میں جمہوریت نہیں، خاندانوں کا قبضہ ہے‘‘ اور اگر میاں صاحبان نے برا منایا تو تردیدی بیان بھی لکھا رکھا ہوا ہے جبکہ ویسے بھی میرا یہ مطلب نہیں تھا جو عام طور پر سمجھا جائے گا کیونکہ اصل صورتِ حال تو یہ ہے کہ ہمارے قائدین کے پورے خاندان پر حکومت نے قبضہ کر رکھا ہے جس سے نکلنے کے لیے وہ صبح و شام کوشاں رہتے ہیں جبکہ کئی خواتین و حضرات جو اس خاندان کے رکن نہیں تھے وہ بھی آ کر شامل ہو گئے ہیں جن کی کمریں حکومت کے بوجھ سے دہری ہو گئی ہیں، اور جیسا کہ خبریں مل رہی ہیں، اگر کوئی آ کر ان سب کو اس ناگوار بوجھ سے آزاد کر دے تو وہ ہمیشہ کے لیے مشکور ہوں گے؛ چنانچہ اس کے لیے وہ اندر اور باہر ہر قسم کی کوششیں کر بھی رہے ہیں جو امید ہے کہ بہت جلد رنگ لائیں گی کیونکہ مادر پدر آزاد نیب اور ایف آئی اے سے کوئی بھی توقع کی جا سکتی ہے اور خاندان بھر کی جملہ خدمات بہت جلد دنیا بھر کے سامنے آنے والی ہیں کیونکہ نیکی ویسے بھی چھپی نہیں رہ سکتی۔ آپ اگلے روز لاہور میں اتحادِ اُمت کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
2018ء میں عوام فیصلہ دیں گے
کہ نیا پاکستان کس نے بنایا:پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ''2018ء میں عوام فیصلہ دیں گے کہ نیا پاکستان کس نے بنایا‘‘ کیونکہ 2013ء والا فیصلہ عوام کا نہیں تھا بلکہ پولیس، محکمہ مال اور بیورو کریسی والوں کی شرارت تھی اور ہم نے وہ فیصلہ انڈر پروٹیسٹ ہی قبول کیا تھا جبکہ اب ان کے لیے سزا بھی تجویز کی جا رہی ہے جس کے لیے حسبِ معمول ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جس کی رپورٹ پر ان سب کو ناکوں چنے چبوائے جائیں گے جو کہ اتنا ہی مشکل کام ہے جتنا دھاندلی کے بغیر الیکشن جیتنا۔ انہوں نے کہا کہ ''اورنج ٹرین پر کسی کو اعتراض ہے تو عدالت جائے‘‘ اور عدالت بھی سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کرے گی کیونکہ ان کے جاری کردہ سٹے آرڈر کا جو حشر ہوا ہے، اس کے پیش نظر اسے مزید کوئی رسک نہیں لینا چاہیے، آگے اس کی مرضی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''منصوبے کو سیاست کی نذر نہیں ہونے دیں گے‘‘ کیونکہ اس مرحلے پر پینے کے پانی کی کمی، ہسپتالوں اور سکولوں کی حالتِ زار کا ذکر کرنا سیاست نہیں تو اور کیا
ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی پر خطاب کر رہے تھے۔
جراثیم...؟
ایک اخباری اطلاع کے مطابق سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی طبیعت ناساز ہو گئی ہے اور وہ داخل ہسپتال ہیں اور یہ سب نیب کا کیا دھرا ہے کیونکہ اس کی کارروائی میں پیچیدہ بیماریوں کے جراثیم بہ کثرت پائے جاتے ہیں اور یہ متعدی بیماری بھی ہے کیونکہ اس سے پہلے محترم زرداری صاحب اس میں مبتلا ہو کر دبئی میں بغرض علاج پناہ گزین ہوئے بیٹھے ہیں بلکہ سندھ حکومت کے کئی وزراء اور اعلیٰ بیورو کریٹ بھی وہاں صاحبِ فراش ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ اس مرض کا اندرون ملک علاج موجود ہی نہیں ہے بلکہ اس کی واحد اور مصدقہ علاج گاہ دبئی قرار دی جا چکی ہے؛ چنانچہ گیلانی صاحب کو فوری طور پر احتساب عدالت سے اجازت لے کر دبئی روانہ ہونے کا اہتمام کرنا چاہیے جبکہ مفاہمت ختم ہونے سے بھی ان جراثیم کو نئے سرے سے حملہ آور ہونے کا موقع ملا ہے۔ دبئی کے خصوصی ہسپتال کے علاج سے بھی اس بیماری کا خاتمہ تو نہیں ہوا، تا ہم یہ ایک جگہ رک ضرور جاتی ہے، البتہ یہ علاج تاحینِ حیات ہے، اللہ معاف کرے۔
آج کا مقطع
عبور کر کے ہی اس کو بتا سکوں گا‘ ظفرؔ
ابھی یہ کہہ نہیں سکتا ہوں کیا رکاوٹ ہے