"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں‘ متن‘ ٹوٹے اور افضل گوہر

حقائق سامنے آئیں تو نیب 
کے پسینے چھوٹ جائیں۔ شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نیب خود قابل گرفت ہے‘ حقائق سامنے آئیں تو پسینے چھوٹ جائیں‘‘ اگرچہ سردست تو ہمارے ہی پسینے چھوٹے ہوئے ہیں کیونکہ سب سے زیادہ خطرہ ہماری خون پسینے کی کمائی ہی کو درپیش ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں جو صرف حسد کی وجہ سے ہے جبکہ انہیں اپنے لیے دال دلیا خود کرنا چاہیے کیونکہ اگر کسی جنرل کے بھائی اپنی عاقبت سنوار سکتے ہیں تو ہر کوئی ایسا کر سکتا ہے‘ تاہم‘ جو کچھ خدانخواستہ ہونے جا رہا ہے وہ ہماری قومی روایات کے سخت خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے پنجاب میں کسی کو احتساب سے نہیں روکا‘‘ کیونکہ یہ بے دید لوگ ہمارے روکنے سے رُکتے ہی کب تھے اور یہ جن اونچی ہوائوں میں ہیں، اب یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں تو خود ہر طرح سے حاضر ہوں‘‘ البتہ اگر لڑکے بالے برسات کے موسم کے لیے کفایت شعاری سے کام لیتے ہوئے کچھ پس انداز کر رہے ہیں تو قابلِ درگزر ہیں اور بڑے ہو کر خود ہی سمجھ جائیں گے۔ آپ اگلے دن لاہور میں ایک عشائیے کے دوران غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔
تحفظ خواتین بل مردوں کو رسوا 
کرنے کے لیے منظور کیا گیا۔ فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''تحفظ خواتین بل مردوں کو رُسوا کرنے کے لیے منظور کیا گیا ہے‘‘ اس لیے اب تو دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ خدا سب کو خاکسار جیسا نیک اطوار اور پرہیز گار بنائے اور ہر کسی کو میری بے لوث طبیعت کا نمونہ بننے کی توفیق عطا کرے اور روپے کے لالچ سے محفوظ رکھے جس طرح اس نے اپنے اس ہیچمدان کو رکھا ہوا ہے کہ حکومت سمیت کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا اور اپنی فاقہ مستی ہی میں‘ صبر و شکر کے ساتھ دن پورے کر رہا ہے کہ دُنیا کا مال تو دنیا ہی میں رہ جائے گا اس لیے کبھی اس کی تمنا نہیں کی‘ البتہ اگر کوئی زبردستی جیب میں کچھ ڈال دے تو اس کا دل توڑنا بھی مناسب نہیں سمجھتا جس سے خاص طور پر منع کیا گیا ہے اور ایک درویش کی شان اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے۔ حیرت ہے کہ لوگ روپے پیسے کے پیچھے کیوں بھاگتے ہیں۔ کیا انہیں اپنی عاقبت کا کوئی خیال نہیں؟ استغفراللہ! استغفراللہ! آپ اگلے دن اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
12ارب کی خُورد بُرد
اخباری اطلاع کے مطابق لاڑکانہ کیلئے خصوصی ترقیاتی فنڈ میں 12ارب کی خورد بُرد کے حوالے سے سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ اور رکن قومی اسمبلی فریال تالپور کے خلاف دائر درخواست پر اُن سے جواب طلب کر لیا گیا ہے‘ حالانکہ لاڑکانہ تو پارٹی کا جدّی پُشتی گھر ہے اور گھر کی باتوں کو باہر اُچھالنا کسی طور بھی مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ ڈالروں کے ہوتے ہوئے روپوں کی بات کرنا تو آج کل ویسے بھی فیشن سے باہر ہو چکا 
ہے‘ نیز اس خاندان کو پیسہ جمع کرنے کی ضرورت ہی کہاں ہے کیونکہ خود زرداری صاحب کی نیک کمائی جو بیرون ملک بینکوں میں جمع ہے‘ دو ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے اور سندھ کی حد تک تو بیشک وہ چھپّر ابھی تک ٹوٹی پھوٹی حالت میں موجود ہے جسے پھاڑ کر اللہ میاں نے انہیں نوازا تھا‘ اور سندھ میں پارٹی کی حکومت ابھی تک کسی چھپّر تلے اپنا وقت پُورا کر رہی ہے جبکہ فی الحال تو زرداری صاحب کی صحت یابی کے لیے سب کو دُعا کرنی چاہیے جو اب واقعی بیحد بیمار ہیں۔
استعفے؟
ایک اور اطلاع کے مطابق محسن لطیف سمیت ن لیگ کے یوتھ ونگ کے 3رہنما پارٹی اختلافات کی وجہ سے مستعفی ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنے استعفے یوتھ ونگ کے مرکزی صدر کیپٹن (ر) صفدر کو بھجوا دیئے ہیں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہوا کہ بڑے میاں صاحب اب حقوق العباد کا بھی کوئی خیال نہیں رکھتے۔ اگرچہ ان سطور کے چھپنے تک یہ استعفے واپس ہو چکے ہوں گے کیونکہ محسن لطیف میاں صاحب کی اہلیہ کلثوم نوازکے بھتیجے ہیں اور اگر انہیں ابھی گھر میں رہنا ہے تو محسن لطیف کی تلافی اور حق رسی وہ اب تک کر چکے ہوں گے اور اس بات کی بھی تحقیق شروع کر دی گئی ہو گی کہ یہ اطلاع میڈیا تک کس نے پہنچا دی کیونکہ یہ پارٹی کے سراسر گھر کے معاملات ہیں‘ اور‘ اول تو پارٹی کا کوئی بھی معاملہ پارٹی کا گھر کا معاملہ ہوتا ہے کیونکہ حکومت ماشاء اللہ ساری کی ساری گھر کے افراد پر ہی مشتمل ہے‘ اور اگر یہ محسن لطیف اور کیپٹن(ر) صفدر کے ذاتی اختلاف کا شاخسانہ ہے تو بھی اسے اب تک حل ہو جانا چاہیے۔ اور، اب جناب ذاکر حسین ضیائی کی ارسال کردہ افضل گوہر کی یہ غزل:
رنگ بکھرے تھے اُس کے پانی میں
اُوک بھرنا پڑی نشانی میں
دُکھ تو یہ ہے کہ ساری دنیا ہے
میں نہیں ہوں مری کہانی میں
صرف دریا نہیں بہائو میں
ایک منظر بھی ہے روانی میں
اپنی افسردگی پہ ہنستا شخص
رو بھی سکتا ہے شادمانی میں
کیسی خواہش خرید لی میں نے
جیب خالی ہوئی گرانی میں
آج کا مقطع
راستہ دیتی ہیں دیواریں ہمیں اب بھی ‘ ظفر
در کھلا کرتے تھے پہلے بھی ہمارے نام سے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں