مریضِ غم کا قصّہ مختصر
خونِ دل ہوتا رہا خونِ جگر ہوتا رہا
یوں مریض غم کا قصّہ مختصر ہوتا رہا
برصغیر پاک و ہند کی عظیم اکثریت یقیناً حیرت آشنا نہ رہی ہو گی بلکہ میں تو یہ کہوں گا بہت سے اہل قلم بھی ایسے ملیں گے جنہیں بتانا پڑیگا کہ حیرتؔ کیا تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے بہاولپور کے مشہور شاعر جناب محی الدین شان کو مجھے ایک ملاقات میں بتانا پڑا کہ دنیائے ادب کا ایک آفتاب نیاز فتحپوری بھی ہے اور ''نگار‘‘ اس سے الگ کوئی چیز نہیں۔ نیاز و نگار یک جان اور دو قالب رہے ہیں۔
حیرتؔ‘ خان برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ اب یہ تحقیق نہیں ہو سکا ککے زئی تھے یا کچھ اور‘ دادا میرٹھ سے ہجرت فرمائے شملہ ہوئے۔ والد نے بھی شملہ ہی کو ترجیح دی۔ یہ شملے میں پیدا ہوئے‘ یہیں پلے بڑھے ۔ ابتدائی تعلیم بھی شملے ہی میں حاصل کی‘ جس کی بسم اللہ قرآن مجید سے ہوئی۔ میٹرک کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ بھیج دیئے گئے جہاں سے بی اے کر کے نکلے۔ ایم اے میں داخلہ لے لیا تھا لیکن والد نے یہ سُن گن پا کر کالج سے اٹھا لیا کہ بیٹا علی برادران کی لپیٹ میں آ کر ''خلافتی‘‘ ہو چکا ہے اور سیاسیات سے دلچسپی رکھتا ہے۔ علی گڑھ کا وہ زمانہ عشق نہیں‘ خلل دماغ کا دور جسے وہ ''خطرناک زمانہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں‘ واقعی دلچسپ رہا ہو گا‘ اس لحاظ سے اور کہ فی الواقع مستقبل کے معمار بھی اس زمانے میں زیر تعلیم تھے۔ رشید احمد صدیقی اور ڈاکٹر ذاکر حسین وغیرہ سے حیرتؔ کی یاد اللہ کالج ہی سے چلی آ رہی تھی جو مرتے دم تک قائم رہی۔
والد ملازمت سے پنشن حاصل کرنے کے بعد چھوٹا موٹا پانی اور جوتے کا کاروبار کرنے لگے۔ کالج سے فارغ ہونے کے بعد حیرتؔ کچھ عرصے تک تو والد کا ہاتھ بٹاتے رہے لیکن چل نہیں سکے۔ کچہری شملہ میں ایک وکیل سے نتھی کر دیئے گئے‘ یہ بھی ان کا میدان نہ تھا۔ یہاں سے دامن جھاڑ کر نکلے ہیں تو فوجی اخبار شملہ میں پروف ریڈر ہو گئے۔ یہ اخبار انگریزی میں چھپتا تھا۔ یہاں سے خاصی تگ و دو کے بعد مرکزی سیکرٹریٹ دہلی میں ملازم ہوئے۔ مجلس دستور ساز میں ترجمان کے فرائض سرانجام دیئے۔ دفتر میں ایک شعبے کے ناظم بھی بنا دیئے گئے۔ اسد ملتانی‘ پرویز صاحب وغیرہ حیرتؔ کے ساتھ ایک ہی میز پر مہینوں کام کرتے رہے ہیں۔
دلّی منتقل ہونے کے بعد خوشگوار زندگی کی بنیاد پڑنے ہی لگی تھی کہ آرزوئوں اور تمنّائوں کا خون فالج نے کیا۔ یہ نہ تو فالج تھا اور نہ اسے فالج سے الگ کوئی مرض کہا جا سکتا تھا۔ دلّی میں ایک سے ایک یا بقول عوام بڑا بڑا پڑا ہوا تھا لیکن کسی معالج کے دستِ شفا نے بگڑی بناکے نہیںدی۔بستر پر پڑے ہیں تو مرتے دم تک پڑے ہی رہے اور یہ مدت ایک دو نہیں پورے بیس برس کا احاطہ کرتی ہے۔ نچلے دھڑ میں دم نہیں رہا تھا۔ ناچار قبل از وقت سبکدوشی کی درخواست دینا پڑی اور ایک سو چھبیس روپے چار آنے پر زندگی کی مہم سر کرنے لگے۔
والد کی رحلت کے بعد کاروبار میں تباہی کا سامنا کرنا پڑا‘ یہاں تک کہ ساتھیوں سے طویل مقدمہ بازی رہی جس نے اور نڈھال کر دیا۔ مقدمات کی پیروی جناب غلام بھیک نیرنگ مشہور شاعر و ادیب قلیل معاوضے پر کرتے رہے اور پھر تو شملے سے رسمی تعلق ہی رہ گیا تھا بلکہ نام کا تعلق۔ بیمار پڑنے کے بعد بیوی کے عزیزوں کے یہاں موڑک راجستھان یہ مُردہ بدست زندہ کی سچی تصویر بن کر پہنچے‘ اس وقت جب دلی لُٹ رہی تھی‘ دلی جسے مسلمانوں کے خون سے نہلایا جا رہا تھا‘ یوں کہہ لیجیے ''غُسل صحت‘‘ دیا جا رہا تھا۔ یہ اُس کا حق بھی تو تھا‘ اپنے پیاروں کے خون سے رنگ کر وہ زندگیٔ جاوید اور اس بات کی متمنی تھی کہ اس کے پیارے کہیں اور نہ جا بسیں۔ اس نے اپنوں کو اپنے ہی سینے میں چھپا لیا‘ کہیں جانے نہ دیا یعنی ع
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
حیرت بایں حالتِ زار قلعہ بند رہے۔ بھلا ہو ایک ہندو دوست کا جس نے حقِ دوستی ادا کیا اور ثابت کر دکھایا کہ دنیا صرف درندوں ہی نہیں‘ انسانوں کی بستی بھی ہے۔ یہ اور بات کہ کبھی کبھار یا اکثر و بیشتر فطرت نے باگ ڈور چنگیزیت کے ہاتھ میں دے دی ہو‘ زمانہ بہرحال رنگ بدل کر ہی دم لیتا ہے۔''آزادی‘‘ ملتے ہی حیرتؔ دلّی بدر ہوئے۔ زبان پر اپنا ہی شعر تھا ؎
رہ کے دلّی میں کیا کہیں حیرتؔ
کیا مصیبت وہاں اُٹھائی ہے
گمانِ غالب یہ ہے کہ وہ دوست جو آڑے وقتوں میں کام آئے تھے‘ سکھ تھے۔ حیرت نے ان کا ذکر اپنے کوائف میں کیا ہے‘ نام یاد پڑتا ہے دلیپ سنگھ تھا۔ حیرت موڑک گئے‘ وہاں سے رام پور پہنچے اور پاکستان آنے تک وہیں رہے۔ روزِ اول ہی پاکستان آنے کی ٹھان لی تھی۔ اپنے ارادوں کی تکمیل پر ایمان رکھتے تھے اور وہ اس میں کامیاب ہو کر رہے۔ اواخر 62ء میں سردیائے ہوئے جب لاہور پہنچے تو بدر حسن قریشی کے مہمان ہوئے‘ یہ ان کے عزیزوں میں سے ہیں جنہوں نے بہ اصرار ایک ہفتے سے زیادہ مہمان رکھا۔ لاہور سے سکھر کو نوازا۔ یہاں اپنی بیوی کے ماموں جناب یوسف جھالاواڑی کے مہمان بنے۔ چاہتے تھے یہیں رہ جائیں لیکن یہاں آرام تو تھا‘ کام نہیں۔ کسی ادارے سے کوئی تحریری کام مل جاتا تو مرحوم وہیں ٹک جاتے۔
سکھر کے دورانِ قیام میں جب اشتیاقِ دید کے زیر اثر آمادۂ سفر ہوا تو والد محترم سید مبارک شاہ جیلانی نے میرا ساتھ دیا۔ ادھر مشہور سندھی شاعر شیخ محمد فاضل اور ماسٹر غلام حیدر سکھر میں ہمارے منتظر تھے۔ جب یہ ''چار یار‘‘ درِ حیرت پر پہنچے تو وہ منظر دیدنی تھا۔ دونوں طرف سے جذبات کی فراوانی‘ کچھ کہا‘ کچھ سُنا ‘ کچھ کہہ نہ سکے‘ کچھ سنا نہ گیا۔ ہماری خاطر چائے سے بھی کی گئی۔ ملفوظاتِ عالیہ اور گفتارِ عالمانہ سے بھی۔ ذکرِ خیر جناب جوش ملیح آبادی اور ان کے ساتھ اکبر علی خان ابن جناب امتیاز علی خاں عرشی کا اس لیے آیا کہ نگار رامپور ان کے زیر مطالعہ تھا جسے اکبر علی خاں نے نیاز صاحب کے پاکستان چلے آنے کے بعد جاری کر دیا تھا۔ فرماتے تھے اکبر کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا‘ جیسے باپ ہیں ویسا بیٹا نہ ہوا۔ میں یہ کہتے کہتے رہ گیا ایسا ہوتا کب ہے۔ مرحوم ہمیں غزل بھی سنانا چاہتے تھے‘ ہم لوگوں نے فرمائش ہی نہیں کی اس لیے انہوں نے خط میں لکھ کر بھجوائی...
ایک بچے کے والد نے ٹیوشن کا ماہانہ معاوضہ دس روپے نذر کیا۔ مرحوم نے پانچ روپے یہ کہہ کر واپس کر دیئے کہ جتنا کچھ میں نے اس بچے کو پڑھایا اس کا معاوضہ پانچ سے زیادہ نہیں بنتا۔ دینے والے کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں لیکن اس مردِ غیور نے زبردستی بچے کی جیب میں یہ کہہ کر ٹھونس دیئے ''لو بیٹا یہ ہماری طرف سے ہیں‘‘۔ میرے چچا زاد بھائی کراچی جا رہے تھے میں نے تاکید کر دی کہ حیرتؔ سے ملنا اور کچھ سلوک بھی کر دینا۔ موصوف نے بیس روپے نذر گزارے۔ دس روز بعد کیا دیکھتا ہوں ایک منی آرڈر چلا آ رہا ہے‘ اس تنبیہ کے ساتھ کہ یہ کیا ہے اور کیوں ہے؟
روزنامہ حریت درگاہ بخاری پر بطور پھولوں کی چادر چڑھایا جانے لگا۔ ردّی کا ڈھیر دیکھ کر ایک روز میں نے کہا اسے بیچ دیا جائے تو اچھا ہے۔ فرمایا'' مالِ غنیمت ‘‘ کو بیچ کر رقم کسی مستحق کو دے دوں گا؛ حالانکہ سب سے بڑھ کر مستحق وہ خود تھے۔ فرماتے تھے اعزازی طور پر آنے والی چیزوں پر میرا حق نہیں ع
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
افسوسناک:ہمارے دیرینہ ساتھی اور سینئر صحافی پرویز حمید اگلے روز بقضائے الٰہی انتقال کر گئے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔آمین!
آج کا مقطع
اِک دن سو کر اُٹھیں تو نقشہ ہی کچھ ایسا ہو، ظفرؔ
میل و میل زمیں کی رنگ، آسمان کی بھوری ہو