ترقی کے لیے میں کی روش چھوڑ کر
ہم کا راستہ اپنانا ہو گا: شہباز شریف
خادم اعلیٰ میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''ترقی کے یے میں کی روش چھوڑ کر ہم کا راستہ اپنانا ہو گا‘‘ جبکہ ہم ذاتی طور پر تو میں کی روش کب کی چھوڑ کر ہم کا راستہ اپنا چکے ہیں کیونکہ جب سے اس ترقی میں عزیزی حمزہ شہباز نے اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا ہے‘ اس کے بعد میں سے ہم ہو گئے ہیں اور ترقی بھی دن دُگنی رات چوگنی ہو رہی ہے بلکہ سارا کام ہی برخوردار کے ذمے ہے جبکہ خاکسار اب یہ چیلنج کھل کر دے رہا ہے کہ اگر مجھ پر ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے تو بیشک میرا نام بدل لیں‘بلکہ میں سیاست ہی چھوڑ دوں گا‘ اگرچہ اس سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ برخوردار ماشاء اللہ اس کام میں اس قدر طاق ہو چکا ہے کہ میں اگر گھر بھی بیٹھ جائوں تو ترقی کی رفتار میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''چاروں صوبے ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں‘‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ چاروں صوبے پنجاب کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں حتیٰ کہ یہ کہنا اور بھی زیادہ صحیح ہو گا کہ چاروں صوبے لاہور کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔
محکمہ آب پاشی کے ریسٹ ہائوسز
آپ ہی کے اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں محکمہ آبپاشی کے ریسٹ ہائوسز سرکاری خزانے کے لیے سفید ہاتھی بن چکے ہیں جبکہ ان میں تعینات233ملازمین مختلف افسروں اور‘ عزیزو اقارب کو مبینہ طور پر بغیر کسی معاوضہ کے ٹھہرایا جاتا رہا جس کا کوئی ریکارڈ مرتب نہیں کیا جاتا بلکہ سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل91.89فیصد ریسٹ ہائوسز کے اخراجات میں تین گنا اضافہ کر دیا گیا ہے اور ایک سال میں 38کروڑ 41لاکھ 379 روپے سے زائد تزئین و آرائش و دیگر اخراجات پر اڑا دیے گئے جبکہ ریسٹ ہائوسز سے آمدنی صفر رہی اور اس ساری صورت حال پر صوبائی وزیر آبپاشی اور سیکرٹری آبپاشی سمیت متعلقہ افسروں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اس کے وزیر ہمارے عزیز میاں یاور زمان ہیں جو بہت اچھی شہرت کے مالک ہیں۔ انہیں اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مشکوک رہنما
ایک اطلاع کے مطابق ایم کیو ایم نے اپنے مشکوک رہنمائوں کو بیرون ملک بھیج دیا ہے جن میں فیصل سبزواری‘ حیدر رضوی‘ اظہار الحسن‘ خوش بخت شجاعت اور ارتضیٰ خلیل شامل ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ کچھ مشکوک لوگ بڑے دھڑلے سے بیرون ملک سے واپس آ گئے ہیں اور آتے ہی غیر مشکوک لوگوں میں شامل ہو گئے ہیں اور چونکہ وہ ساتھ ساتھ اقبال جرم بھی کرتے جا رہے ہیں‘ اس لیے اب انہیں کم از کم مشکوک نہیں کہا جا سکتا بلکہ وہ سارے شکوک و شبہات رفع کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس کی روشنی میں رینجرز‘ ایف آئی اے اور نیب اپنا اُلو سیدھا کرنے کی کوشش میں ہیں اور واپس آنے والوں کے ساتھ پی ٹی آئی والے بھی اپنا لُچ تلنے کے لیے رابطے میں ہیں جبکہ فاروق ستار کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم سمندر ہے‘ قطرے نکلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا حالانکہ قطرہ قطرہ جمع ہو کر ہی دریا بنتا ہے اور پھر وہی سمندر میں بھی گر کر اسے سمندر بناتے ہیں جو ہرگز مشکوک نہیں ہوتے۔!
نظریاتی پوزیشن؟
بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی نظریاتی پوزیشن بحال کرنی ہے اور یہ کہ آئند انتخابات میں کامیابی ہماری ہو گی۔ یہ نظریاتی بلکہ کھوئی ہوئی نظریاتی پوزیشن جے اے رحیم' شیخ رشید احمد‘ حنیف رامے‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘معراج خالد اور معراج محمد خاں وغیرہ نے قائم کی تھی جسے ذوالفقار علی بھٹو کی شعلہ بیانی بھی دستیاب ہوئی۔ اب اگر پارٹی نے وہ پوزیشن مال و زر کے لالچ میں پس پشت ڈال کر کہیں گم کر دی ہے تو اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے پارٹی یہ سارے لوگ کہاں سے لائے گی؟ کیا پیپلز پارٹی کی نظریاتی پوزیشن منظور وٹو‘ رحمن ملک‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویزاشرف اور دیگران بحال کریں گے؟ اگر اس ضمن میں کچھ کرنا ہی ہے تو پارٹی کو سب سے پہلے اپنی جملہ خوش فعلیوں کی اجتماعی معافی عوام سے مانگنی ہو گی کیونکہ یہ کام کسی جادو کی چھڑی سے سرانجام پانے والا نہیں‘ نہ ہی پارٹی کے پاس اپنے گناہوں کے بوجھ کے علاوہ ایسی کوئی چھڑی موجود ہی ہے۔
تقریبِ ریٹائرمنٹ
اخبار میں لگی ایک کالمی خبر کے مطابق اگلے روز میو ہسپتال لاہور کے ریٹائرڈ ہونے والے ایک نائب قاصد کے اعزاز میں تقریب منعقد کی گئی جس کے مطابق محمد ریاض نائب قاصد کو سروس سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا جو مہمان خصوصی ڈاکٹر محمد امجد شہزاد میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے عطا کیا۔ تقریب کی صدارت محمد اسلم انصاری صدر ایپکا یونٹ میوہسپتال لاہور نے کی۔ نائب قاصد سب سے نچلے گریڈ کا ملازم ایک طرح کا چپراسی ہی ہوتا ہے اور اس لحاظ سے یہ تقریب ایک انوکھی نوعیت کی ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ یہ کافی حد تک خلافِ معمول بھی ہے جبکہ ہمارے ہاں بڑے افسروں ہی کو ریٹائرمنٹ پر ایسی تقاریب سے نوازا جاتا ہے اور اس طرح یہ ایک نہایت قابل تعریف اور قابل تقلید تقریب ہے اور چھوٹے ملازمین کی بھی اسی طرح عزت افزائی ہوتی رہنی چاہیے لہٰذا اس رجحان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے اور منتظمین اس کے لیے بجا طور پر تحسین کے مستحق ہیں۔
نوٹ: گزشتہ کالم تازہ محصولات میں افسانوں کے مجموعے ''زرافہ اور لمبی لڑکی‘‘ کا ذکر تھا‘ میں اس کے مصنف اجمل اعجاز کا نام لکھنا بھول گیا تھا۔ قارئین نوٹ فرما لیں۔
آج کا مقطع
اصرار تھا انہیں کہ بھلا دیجئے ظفر
ہم نے بھلا دیا تو وہ اس پر بھی خوش نہیں