"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں‘ متن اور ٹوٹا

دہشت گردوں نے میرے 
بچوں‘ بچیوں کو نشانہ بنایا : نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''دہشت گردوں نے میرے بچوں‘ بچیوں کو نشانہ بنایا‘‘ اگرچہ ہمارے اپنے بچے بچیاں تو اللہ کے فضل سے محفوظ اور صحیح و سلامت ہیں۔ البتہ دہشت گردوں کے قلع قمع کے لیے جو 20 نکات طے کئے گئے تھے‘ ان میں سے صرف پندرہ پر عمل ہو سکا ہے جو فوج نے کرنا تھا جبکہ ہم نے اس کا پورا پورا ارادہ کر لیا تھا جبکہ انسان اگر کسی نیک کام کا ارادہ کر لے اور وہ پورا نہ بھی کر سکے تو اسے اس کا ثواب ضرور پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ ہم صابر و شاکر لوگ اسی ثواب پر گزارہ اور اکتفا کیے ہوئے ہیں اور اگر یہ ''را‘‘ کے ایجنٹ کو پکڑنے کا شاخسانہ ہے تو ایسی باتیں ہماری ایجنسیوں کو پہلے سوچنا چاہیے تھیں‘ تاہم اس میں بھارت کا ہاتھ نہیں ہو سکتا جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس واقعے پر مودی صاحب نے ہمدردی کا پیغام بھیج دیا ہے‘ اب آپ اور کیا ثبوت چاہتے ہیں‘ بلکہ انہوں نے تو اس کے اہل و عیال کو خانہ بدر بھی کر دیا ہے اس لیے وہ اپنے کیے کی سزا خوب بھگت رہا ہے‘ اوّل تو میں سفارش کروں گا کہ اُس کا دماغی معائنہ کرایا جائے کیونکہ مودی صاحب کے ملک کا کوئی صحیح الدماغ شخص پاکستان کے خلاف ایسی گھنائونی کارروائی نہیں کر سکتا‘ اور یہ جو ہسپتالوں میں زخمیوں کے لیے جگہ کم پڑ گئی ہے اور وہاں کوئی دوا تھی نہ ڈاکٹر موجود‘ تو ڈاکٹروں کو ان کے گھروں سے بلا لیا گیا تھا جو بیچارے تھکے ہارے کچھ آرام وغیرہ کر رہے ہوں گے‘ بہرحال اورنج لائن ٹرین وغیرہ کے منصوبوں سے فارغ ہوتے ہیں تو ہسپتالوں اور درس گاہوں پر بھی پوری توجہ دیں گے‘ نیز اس سے بڑی قربانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ میں نے لندن کا دورہ ملتوی کر دیا ہے جہاں سرمایہ کار اور صنعتکار حضرات میرا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''میرا دل خون کے آنسو روتا ہے‘‘ اس لیے میری طرف سے یہی کافی سمجھا جائے کیونکہ یہ اللہ میاں کے کام ہیں‘ اس میں بندہ بشر کیا دخل دے سکتا ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے دن اسلام آباد میں گلشن پارک سانحے پر اظہار افسوس کر رہے تھے۔
دہشت گرد آسان اہداف کو نشانہ 
بنا رہے ہیں : رانا ثناء اللہ
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''دہشت گرد آسان اہداف کو نشانہ بن رہے ہیں‘‘ کیونکہ وہ اتنے بیوقوف نہیں ہیں کہ آسان اہداف کو چھوڑ کر مشکل اہداف کو نشانہ بنائے اس لیے خدا کا شکر ہے کہ ہمارا واسطہ کسی بے وقوف دشمن سے نہیں ہے ورنہ پتا نہیں کیا سے کیا ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ ''گلشن اقبال دھماکہ قیامت سے کم نہیں ہے‘‘ اور یہ بھی دہشت گردوں کی مہربانی ہے کہ دھماکے میں بال بیئرنگ استعمال نہیں کئے اور شکر ہے کہ اس کے نتیجے میں کوئی گڑھا بھی نہیں پڑا ورنہ اُسے پُر کرنے پر بھی کافی خرچہ آ جانا تھا اس لیے اس قیامت کو قیامت صغریٰ ہی کہا جا سکتا ہے اور اگر پوری قیامت آ جاتی تو ہم کہاں جاتے؟ انہوں نے کہا کہ ''ذمہ داروں کو گرفتار کریں گے‘‘ بیشک اس کا نتیجہ کچھ بھی نہ نکلے لیکن گرفتاری کی بے عزتی سے ہی انہیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے لیکن ایسے بے شرموں کو شرم کہاں آتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی پر گفتگو کر رہے تھے۔
سیاسی مخالفین حیران...؟
پیپلز پارٹی پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات عابد حسین صدیقی نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے بیان سے مخالفین حیران رہ گئے۔ صدیقی صاحب خود ہی بتائیں کہ اس میں حیران ہونے والی کیا بات ہے‘ وہی گھسی پٹی پرانی باتیں ہیں جن پر تادیر اقتدار میں رہ کر بھی اس پارٹی نے قطعاً عمل نہیں کیا اور لوٹ مار ہی میں لگی رہی۔ زیادہ دور مت جائیے‘ تقریر کرتے وقت ان کی بغل میں جو سید یوسف رضا گیلانی کھڑے تھے‘ پارٹی کے عزائم کو ظاہر کرنے کے لیے ان کی ذات والا صفات ہی کافی ہے کہ انہوں نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران کیا کچھ نہیں کیا۔ حتی کہ ایم بی بی ایس بھی کہلائے‘ اور یہ سب کچھ والد بزرگوار کی عین سرپرستی میں ہوتا رہا۔ اصل بات یہی ہے کہ وہ ذائقے ابھی تک زبانوں سے چمٹے ہوئے ہیں۔ بلاول پہلے ان بزرگوں سے توبہ استغفار تو کرائیں تاکہ لوگ کسی حد تک اعتبار تو کرنے لگیں۔ کون سی پارٹی اور کون سا نظریہ؟ بھٹو کا جو نظریہ تھا وہ بھی بھٹو کا نہیں بلکہ جے اے رحیم‘ حنیف رامے‘ شیخ رشید احمد اور ملک معراج خالد وغیرہ کا دیا ہوا تھا‘ بھٹو نے اس کے ذریعے لوگوں کو بیوقوف ضرور بنایا کیونکہ خود مرحوم بنیادی طور پر جاگیردار تھے جو وہ آخر دم تک رہے اور اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں انہی ٹوانوں‘ کھوسوں‘ اور قریشیوں میں جا شامل ہوئے جن کے خلاف جدوجہد کرنے کا کارکنوں کو جھانسہ دیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے افسوسناک انجام پر ایک چڑیا بھی نہیں پھڑکی‘ حالانکہ کہا یہی گیا تھا کہ اگر مجھے مار دیا گیا تو دریا لہو سے لال ہو جائیں گے۔ پارٹی کے پاس اب وہی چباپا ہوا لقمہ ہے کہ روٹی‘ کپڑا اور مکان دے گی‘ حالانکہ سالہا سال حکمران رہنے کے بعد بھی یہ وعدہ وعدہ ہی رہا۔ اب پارٹی کے ہاتھ کونسی گیڈر سنگھی آ گئی ہے جو اقتدار میں آ کر وہ ایسا کر دے گی‘ سو‘ بلاول خاطر جمع رکھیں‘ جب تک وہ والد صاحب سمیت جملہ شہرہ آفاق انکلوں کا بوجھ اپنے سر سے نہیں اتاریں گے‘ اس وقت تک بات نہیں بنے گی۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا جو اب تک ہوتا آیا ہے کہ ایک پارٹی سے تنگ آئے ہوئے احمق عوام دوسری‘ اور وہ بھی بار بار کی آزمائی ہوئی‘ پارٹی کی طرف دیکھتے ہیں اور اس کی سزا بھگتتے رہتے ہیں۔ چوہدری سرور نے لاکھ روپے کی بات کہی ہے کہ ملک میں صرف حکمران خوشحال ہیں اور ابھی چند سال پہلے ہی پیپلز پارٹی حکمران تھی! جو لوگ لوٹ کھسوٹ کی اس شرمناک روایت کو توڑنے کی توفیق اور طاقت رکھتے ہیں‘ اگر انہوں نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو ان کا یوم حساب بھی کچھ زیادہ دور نہیں ہے کیونکہ یہ سارا کچھ ملی بھگت ہی سے ہو رہا ہے!
آج کا مقطع
جسے ہر دم اچھالتا ہوں، ظفرؔ
ایک اٹھنی ہے، وہ بھی کھوٹی ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں