وزیراعظم میاں نوازشریف نے دورہ امریکہ منسوخ کر دیا ۔ بظاہر یہ تنسیخ سانحہ لاہور کی وجہ سے ہے جس پر کسی کو بھی یقین نہیں آ رہا‘ کیونکہ عالمی سطح پر ایسے مواقع دیر بعد آیا کرتے ہیں جہاں ہر ملک کی اعلیٰ ترین سطح پر نمائندگی اور موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ سانحے کا صدمہ اپنی جگہ پر‘ لیکن یہ کوئی پہلا واقعہ یا نئی بات نہیں ہے جس کے لیے پنجاب حکومت نے سرکاری طور پر سہ روزہ سوگ کا اعلان کر دیا۔ بعض کی طرف سے اس دورے کی منسوخی کو پنجاب میں تاخیر ہی سے سہی‘ دشت گردوں‘ ان کے مددگاروں اور سہولت کاروں کے خلاف کریک ڈائون سے جوڑا جا رہا ہے جو کہ آرمی چیف کے حکم پر شروع کیا گیا ہے کیونکہ اب تک حکومت کا یہی خیال تھا کہ پنجاب میں یہ کارروائی نہیں ہونے جا رہی ‘جبکہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس پر زور دیا جا رہا تھا اور یہ اعتراض بھی کہ پنجاب کے ساتھ یہ رعایتی اور امتیازی سلوک کیوں کیا جا رہا ہے جہاں نہ تو نیشنل ایکشن پلان پر کوئی خاطر خواہ عمل کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کوتاہی کی کوئی ٹھوس وجہ بیان کی جا رہی تھی۔ کچھ اندازوں کے مطابق اس صوبے کو دہشت گردوں‘ ان کے مددگاروں اور سہولت کاروں کا گڑھ اور جنت قرار دیا جا رہا تھا۔
جب آرمی چیف نے ضرب عضب آپریشن کا اعلان کیا تو اس وقت بھی حکومت ان عناصر کے خلاف کوئی عملی اقدام اٹھانے کی بجائے ان کے ساتھ مذاکرات ہی کو جاری رکھنا چاہتی تھی ۔ صورتحال کی نزاکت اور حکومتی رویے کے پیش نظر فوج کو یہ کارروائی حکومت کو کوئی اطلاع دیئے بغیر ازخود کرنا پڑی جبکہ چند دن بعد جا کر حکومت کو بھی اس پر تائیدی بیان دینا پڑا۔ حالت یہ تھی کہ انتخابات کے دوران انہی کالعدم تنظیموں کے ارکان کو نواز لیگ کے جلسوں میں شرکت اور سٹیج پر بیٹھے بھی دیکھا گیا‘ یہ بات بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ اسی دوران وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے طالبان کے ساتھ یہ افہام و تفہیم بھی وجود میں آ چکی تھی کہ وہ پنجاب میں کوئی کارروائی نہیں کریں گے جبکہ باقی ملک ان کے لیے کھلا پڑا ہے؛چنانچہ اس کے بعد جہاں کراچی اور بلوچستان سمیت کے پی کے میں یہ عناصر اپنی بھرپور کارروائیاں جاری رکھے ہوئے تھے‘ وہاں پنجاب میں کوئی بڑی اور قابل ذکر کارروائی نہیں کی گئی۔ حتیٰ کہ آپریشن ضرب عضب کے شروع ہو جانے کے بعد بھی پنجاب میں دہشت گردی کی خال خال ہی کارروائیاں دیکھنے میںآئیں جبکہ مذکورہ آپریشن بھی آرمی پبلک سکول والے سانحہ کے بعد شروع کیا گیا۔
جہاں تک طالبان ‘ دہشت گردوں ‘ ان کے مددگاروں اور سہولت کاروں کا نواز لیگ کے ووٹ بینک ہونے کا تعلق ہے تو حکومت نے کبھی کھل کر اس کی تردید نہیں کی ؛جبکہ بعض مدارس میں ان کی پنیری تواتر سے تیار ہوتی رہی اور یہ لوگ حکومتی رعایت یا بزدلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس صوبے میں اپنے قدم جماتے گئے۔ چنانچہ اب جبکہ فاٹا وغیرہ میں فوج نے کارروائیاں کر کے ان عناصر کا خاصی حد تک صفایا کر دیا ہے اور ان کے ٹھکانوں اور لیڈر شپ کو تباہی اور پسپائی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے تو اب یہ لوگ آخری دائو کے طور پر ایسی کارروائیاں دوبارہ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع یعنی وزیراعظم کے دورہ
امریکہ کی منسوخی کی طرف‘ ایسے دوروں کی اہمیت سے کسے انکار ہو سکتا ہے جبکہ اس دوران وزیراعظم کے بھارتی ہم منصب کے ساتھ بھی ملاقات کے امکان کی باتیں ہونے لگی تھیں اور وزیراعظم کو بوجوہ اس دورے اور ممکنہ ملاقات کا شدت سے انتظار بھی تھا کہ یکایک پنجاب میں آپریشن کی ضرب سر پر آ پڑی جبکہ حکومتی ارکان تواتر سے اور بڑی خود اعتمادی سے یہ بات کہتے چلے آ رہے تھے کہ پنجاب میں کراچی جیسا آپریشن نہ ہو گا اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے جبکہ حکومت باقی سارے چھوٹے بڑے کام بھی پوری شدت کے ساتھ جاری رکھے ہوئے تھی اور نت نئے اربوں کے گھپلے منظرعام پر آ رہے تھے اور عوام میں یہ بات تسلیم کی جا چکی تھی کہ انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے‘ حالانکہ نیب کے بازو میں طاقت کا ٹیکہ لگ چکا تھا اور اہل حکومت کی نئی پرانی سبھی فائلیں کھولی جا رہی تھیں لیکن اس کے باوجود حکومت کسی حقیقی خطرے سے دوچار نظر نہیں آ رہی تھی کیونکہ ابھی رینجرز کو کوئی کام سونپا نہیں گیا تھا لیکن اب جبکہ سارا کچھ واضح ہو کر صاف نظر آنے لگا ہے تو فضا یکسر بدل گئی ہے اور جب تک رینجرز پنجاب میں بھی کراچی ہی کی طرح کی کارروائیاں نہیں شروع کر دیتے اس وقت تک عوام مطمئن ہوں گے نہ سیاسی جماعتیں۔
اب پھر دورے کی منسوخی کی طرف آتے ہیں کہ موجودہ حالات میں جبکہ کام باقاعدہ شروع ہو چکا ہے اور حکومتی توقعات کے سراسر خلاف ‘تو ان انتہائی مخدوش حالات میں وزیراعظم کسی صورت بھی ملک سے غیر حاضر ہونا افورڈ نہیں کر سکتے۔ ظاہر ہے کہ یہاں بھی کام فرنٹ مینوں ہی سے آغاز ہو گا جن کے ذریعے لوٹ مار کا یہ اندھیر
مچایا جا رہا تھا۔ اگرچہ وزیراعظم کے ملک میں موجود رہنے سے بھی ایسی کارروائیوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا‘ تاہم ایک نفسیاتی تسلی ضرور موجود رہے گی کہ کرپشن اور دہشت گردی کے ان سہولت کاروں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو تسلی کے لیے کم از کم وزیراعظم تو موقع پر موجود اور دستیاب ہوں گے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے اپنے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے خلاف بھی کارروائی کی کوشش اس وقت کی تھی جب وہ ملک سے باہر تھے‘ اس لیے تاریخ کے دہرائے جانے کا ایک خوف بھی موجود تھا۔ ایک صاحب کا گھوڑا بیمار پڑ گیا جسے لے کر وہ ویٹرنری ڈاکٹر کے پاس گیا جس نے بڑے سے پُڑے میں انہیں ایک سفوف دیا کہ بانس کی نلکی میں ڈال کر اور گھوڑے کے منہ میں رکھ کر پھونک مار دے‘ دوا اندر چلی جائے گی۔ تھوڑے عرصے بعد وہ صاحب واپس آ گئے‘ سُوجی ہوئی سرخ آنکھوں کے ساتھ‘ کیا ہوا؟ ڈاکٹر نے پوچھا :
''گھوڑے نے پہلے پھونک مار دی‘‘ وہ صاحب بولے۔
دیکھیں یہاں پہلے پھونک کون مارتا ہے!
آج کا مقطع
گھیرا ہوا ہے اس کی حدوں نے اسے‘ ظفرؔ
یہ شہر وہ ہے جس کے مضافات ہی نہیں