دہشت گردی کے خاتمے سے بڑھ
کر کوئی ترجیح نہیں ہو سکتی : شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''دہشت گردی کے خاتمے سے بڑھ کر کوئی ترجیح نہیں ہو سکتی‘‘ چنانچہ اب ہم نے ترجیحات کی درجہ بندی کر دی ہے اور ترجیح اول وغیرہ کا مذاق ختم کر دیا ہے کیونکہ لوگ بھی اسے مذاق ہی سمجھنے لگ گئے تھے‘ چنانچہ یہ ہماری سب سے بڑی اور وزنی ترجیح ہے جس کے سامنے ایکشن پلان وغیرہ کی کوئی حیثیت ہی نہیں جس کے ایک نکتے پر بھی عمل اس لیے نہیں ہو سکا کیونکہ اس کا صاف ملب تھا ہمارے ووٹ بینک کا خاتمہ‘ اگرچہ ملکی سلامتی کا مسئلہ بھی درپیش تھا لیکن یہ بھی کوئی عقلمندی نہیں تھی کہ ملک کو بچاتے بچاتے ہم اگلا الیکشن ہی ہار جاتے جبکہ ملک عوام کا ہے اور ہم اسے عوام ہی کے لیے چھوڑ کر وہیں چلے جائیں گے جہاں ہماری جھگیاں ہیں‘ ہماری پرچون کی دکانیں ہیں اور ہمارے بچے وہاں بھٹوں پر مزدوری کرتے ہیں یا ہوٹلوں میں چھوٹے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پولیس دربار سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت حاصل کئے بغیراسلام
نافذ نہیں ہو سکتا : مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت حاصل کئے بغیر اسلام نافذ نہیں ہو سکتا‘‘ اور ہم اس نیک مقصد کے لیے حکومت حاصل کرنا چاہتے ہیں ورنہ ہماری عاجزانہ غذا حلوے کی صورت میں ہمیں مل ہی رہی ہے جس میں صرف گھی سوجی اور چینی ڈلتی ہے‘ کستوری نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت ہمیںبند گلی میں لے جا رہی ہے‘‘ اور ہمیں کسی بند گلی ہی کی حکومت مل جائے تو بہت ہے کیونکہ باقی اور کھلی گلیوں کو ہم خود فتح کر لیں گے کیونکہ پیٹ سب کچھ سکھا دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم اپنے مطالبات میں پرعزم ہیں‘‘ اور خاکسار کے عزائم سے حکومت اچھی طرح سے واقف ہے کہ ان سے کس طرح عہدہ برآ ہوا جاتا ہے کیونکہ ہم نے اپنے مسائل کو کبھی لاینحل نہیں ہونے دیا بلکہ وہ ہمیشہ قابل حل ہوتے ہیں بشرطیکہ انہیں حل کرنے والا کوئی موجود ہو‘ ماشاء اللہ جن کی کمی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز میڈیا کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
میرا مستعفی ہونے کا کوئی ارادہ نہیں : شہریار خان
پی سی بی کے چیئرمین شہریار خاں نے کہا ہے کہ ''میرامستعفی ہونے کا کوئی ارادہ نہیں‘‘ کیونکہ سیٹھی صاحب بھی مستعفی نہیں ہو رہے اور وہ بجاطور پر سمجھتے ہیں کہ گزشتہ عام انتخابات میں ادا
کی گئی خصوصی خدمات کی وجہ سے انہیں نکالا نہیں جا سکتا جبکہ حکومت احسان فراموش نہیں ہے بلکہ اس نے تو دہشت گردوں کے مسئلے پر بھی احسان فراموشی کا مظاہرہ نہیں کیا اور ان کے ساتھ یک جان دو قالب ہو کر چل رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی خاطر میں نہیں لا رہی تو وہ نجم سیٹھی کو کیوں نکالے گی اور میرے مستعفی ہونے کا سوال کیوں پیدا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ''اس حوالے سے تمام تر اندازے بے بنیاد ہیں‘‘ کیونکہ چوکے چھکے کھلاڑیوں نے مارنے تھے میں نے یا سیٹھی صاحب نے نہیں‘ اگرچہ ہم اپنی جگہ پر بیٹھے پورا زور لگا رہے تھے حالانکہ اس عمر میں مجھے زور لگانے سے منع کیا گیا ہے جس کا کوئی انتہائی افسوسناک نتیجہ بھی نکل سکتا تھا۔ آپ اگلے روز لاہور میں اپنے استعفیٰ کی افواہوں پر تبصرہ کر رہے تھے۔
خصوصی اختیارات؟
خبروں کے مطابق چودھری نثار اور شہبازشریف کی آرمی چیف سے ملاقات ہوئی ہے جس میں حکومت نے یہ کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وہ رینجرز کو بلا سکتی ہے مگر خصوصی اختیارات نہیں دے گی اور یہ وہی اختیارات ہیں جن کے بارے میں سندھ حکومت لیت و لعل کر رہی تھی تو چودھری نثار نے زور دے کر ان سے یہ مطالبہ منوایا تھا کیونکہ ان کے خیال میں ان اختیارات کے بغیر رینجرز نتیجہ خیز کارروائیاں نہیں کر سکیں گے ۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سول ملٹری اختلافات موجود ہیں مگر معاملات پوائنٹ آف نوریٹرن پر نہیں پہنچے۔ انگلستان میں ایک قبرستان میں ایک قبر پر اس مضمون کا کتبہ درج تھا کہ یہ اس گھوڑے کی قبر ہے جس نے جنگ عظیم دوم میں ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں ۔اسے دولتیاں جھاڑنے کی عادت تھی اور ایک دن اس نے ایک بم کو لات مار دی چنانچہ یہاں حالات اگر اسی ڈگر پر چلتے رہے تو حکومت کا یہ گھوڑا کسی وقت بھی بم کو لات مار سکتا ہے!
قبضہ گروپ
اخباری اطلاع کے مطابق محکمہ مال لاہور کی تحصیل شالیمار کی حدود میں کھربوں روپے مالیت کی 3342 کنال رقبے کی 21 الاٹمنٹوں کے انتقالات کینسل کر کے رقبہ صوبائی حکومت کے نام پر ہو جانے کے باوجود قبضہ گروپ نے تعمیرات ہائوسنگ سکیمیں بنا کر فروخت کرنا شروع کر دیا ۔لینڈ مافیا نے ایک ہائوسنگ سکیم کے ساتھ سٹیڈیم کے لیے مختص ہونے والی زمین پر بھی قبضہ کرنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ ڈی جی سپورٹس پنجاب نے نوٹس لے لیا ہے۔ محکمہ مال کے ایک افسر نے مال لے کر 302 کنال کی الاٹمنٹ بحال کرنے کے احکامات جاری کر دئیے۔ 22 کنال ایک مرلہ رقبہ مسلم لیگ نون کی ایک اہم شخصیت کے زیراستعمال ہے۔ اس سلسلے میں بے شمار نام اور بھی دیئے گئے ہیں جن کے نام یہ رقبے الاٹ ہیں ۔ایسے قبضوں کی مثالیں ادھر ادھر بہت بکھری پڑی ہیں لیکن اصل قبضے تو کچھ اور ہیں ۔اقتدار پر قبضہ وسائل پر قبضہ‘ لوگوں کے دست و پا پر قبضہ وغیرہ۔
آج کا مقطع
میں اگر اس کی طرف دیکھ رہا ہوں تو ظفرؔ
اپنے حصے کی محبت کے لئے دیکھتا ہوں