میں اپنے موٹاپے سے بہت پریشان ہوں۔ پتا نہیں یہ کہاں سے آ گیا ہے۔ اسے گھٹانے کی بہت کوشش کرتی ہوں لیکن یہ کم بخت روز بروز بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ میرے میاں مجھے اپنے ساتھ کہیں باہر بھی نہیں لے کر جاتے کہ لوگ دیکھ کر کیا کہیں گے۔ ڈائٹنگ بھی کر کے دیکھ لی ہے ‘کوئی فرق نہیں پڑا۔ میں کیا کروں؟ (فربہ خاتون‘ پرانی انارکلی‘ لاہور)
اس موٹاپے کی وجہ سے آپ کی نسبت آپ کے میاں کو زیادہ پریشان ہونا چاہیے‘ اور وہ ہوں گے بھی‘ یہ ان خوراکوں کا نتیجہ ہے جو اب تک آپ نے بے دریغ کھائی ہیں بلکہ آپ لوگ تو نمک مرچ چکھتے چکھتے ہی نصف ہنڈیا صاف کر دیتی ہیں۔ آپ کا مسئلہ ذرا بڑاہے‘ اس لیے ہم اس پر ذرا کھل کر بات کریں گے۔ اس کا ایک علاج تو یہ ہے کہ سرجری بہت ترقی کر چکی ہے‘ جسم کا فالتو گوشت اور چربی الگ کروا دیں حتیٰ کہ آپ دبلی پتلی رہ جائیں۔ کھال البتہ ذرا دیر سے آئے گی اور اگر نہ بھی آئے تو آپ نے کون سے اس کے جوتے بنوانا ہیں اور اگر آپ سرجری کا یہ خرچہ برداشت نہ کر سکیں کیونکہ اس کے اخراجات اتنے ہوں گے کہ میاں ایک آدھ اور شادی بھی کر سکیں گے‘ تو اس کا واحد علاج یہ ہے کہ خود سے موٹی خواتین کے ساتھ ربط ضبط رکھیں۔ ان کے ہاں جایا کریں اور انہیں اپنے ہاں بلایا کریں ‘خاص طور پر اس وقت جب آپ کے میاں گھر پر موجود ہوں۔ وہ انہیں دیکھیں گے تو آپ ان سب کے مقابلے میں انہیں بیحد سمارٹ نظر آئیں گی‘ یہ شرطیہ نسخہ ہے۔ موٹاپے کی کچھ عبرت انگیز اور مفید مثالیں درج کی جا رہی ہیں کہ رات کو میاں بیوی سو رہے تھے کہ زلزلہ آیا اور بیگم بیڈ سے نیچے گر پڑیں جس پر میاں نے پوچھا کہ بیگم آپ زلزلے کی وجہ سے گری ہیں یا زلزلہ آپ کے گرنے کی وجہ سے آیا ہے؟ ایک بہت موٹی خاتون بالکونی میں بیٹھی نیچے بازار کی رونق دیکھنے میں محو تھیں کہ توازن بگڑا اور وہ نیچے آ رہیں۔ تین دن کے بعد انہیں ہسپتال میں ہوش آیا تو نرس سے بولیں: ''کیا میں زندہ ہوں؟‘‘''آپ تو زندہ ہیں‘‘ نرس نے جواب دیا ''لیکن جن تین آدمیوں پر آپ گری تھیں وہ اسی وقت اللہ میاں کو پیارے ہو گئے تھے‘‘ ۔
ایک سیٹھ کے ہاں ڈاکہ پڑا‘ گھر سے تو انہیں کچھ نہ ملا‘ جاتے وقت وہ سیٹھ کی موٹی بیوی کو گاڑی میں لاد کر لے گئے‘ یہ کہتے ہوئے کہ اگر کل تک تم نے دو لاکھ روپے ادا نہ کئے تو ہم اسے چھوڑ دیں گے!
تاہم‘ آپ کے لیے آخری نسخہ یہ ہے کہ اگر کوئی چارہ نہیں چلتا تو اپنے آپ کو موٹا سمجھنا چھوڑ دیں اور گھر میں اچھلنا کودنا معمول بنا لیں۔ اس سے زیادہ سے زیادہ کچھ گڑھے ہی پڑ جائیں گے تو ان کی خیر ہے۔
نیند نہیں آتی
میں تو اس زندگی سے تنگ آ چکی ہوں‘ نیند نہیں آتی اور ساری رات کروٹیں بدلتی رہتی ہوں‘ کبھی کبھار نیند آتی بھی ہے تو بُرے بُرے خواب آنے لگتے ہیں۔ بدخوابی بھی ہو جاتی ہے چنانچہ آنکھ کھل جاتی ہے اور دوبارہ نیند نہیں آتی۔ خواب آور گولیاں بھی کھا کر دیکھ لی ہیں کوئی فرق نہیں پڑا‘ مشور دیجئے (شب خیز بانو‘ گڑھی شاہو لاہور)
سب سے پہلے تو اپنے خیالات کو درست رکھنے کی کوشش کریں ورنہ نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے‘ یقین نہ آئے تو کسی دن سولی چڑھ کر دیکھ لیں۔ نیند بھی آئے گی اور برے خوابوں سے بھی نجات حاصل ہو جائے گی۔ دن بھر بھینس کی طرح پڑی نہ رہیں‘ گھر کا سارا کام خود کیا کریں اور میاں کو بھی تھوڑا آرام کرنے کا موقعہ دیں۔ تھکاوٹ ہو گئی تو نیند خود بخود آئے گی۔ اور اگر پھر بھی صورتحال ویسی کی ویسی ہی رہے تو تارے گنتی رہا کریں۔ ہمارے دوست ڈاکٹر اختر شمار شاعری کے علاوہ یہی کام کرتے رہیں‘ اگر تارے گننے میں کوئی دقت پیش آئے تو ان سے رجوع کریں اور یہ کارخیر مل کر کریں کہ مل کر کام کرنے سے ویسے بھی بڑی برکت ہوتی ہے۔ ہم بھی آپ کے لیے دعا کریں گے۔
رنگ کالا ہے!
میرا رنگ پیدائشی طور پر کالا ہے جس سے زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ بیوٹی کریمیں بھی مل مل کر دیکھ چکی ہوں۔ کوئی فرق نہیں پڑا۔ میاں بھی بیزار ہو چکے ہیں بلکہ میاں چھوڑ ‘ کوئی بھی منہ نہیں لگاتا۔ کئی بار خودکشی کا بھی سوچ چکی ہوں لیکن اپنے میاں کا خیال آتا ہے کہ وہ بالکل ہی تنہا رہ جائیں گے‘ مشورہ دیں (اسود خانم‘ ساندہ کلاں‘ لاہور)
یہ سارا آپ کی کھال کا قصور ہے کیونکہ جلد کی رنگت سے ہی آدمی کے گورے یا کالے ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کھال اتروانے کی کوشش کریں اور اس کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ بازار میں کسی بھی مکان میں داخل ہو جائیں‘ وہ گھڑی بھر میں آپ کی کھال اتار کر فارغ کر دیں گے حتیٰ کہ تیل اور سبزی کی دکانوں پر بھی یہ تسلی بخش انتظام موجود ہے اور اگر یہ منظور نہ ہو تو کوشش کر کے کسی افریقی ملک میں ہجرت کر جائیں‘ وہاں جب آپ کے میاں آپ کو حبشیوں کے درمیان دیکھیں گے تو آپ ہی انہیں خوبصورت لگیں گی‘ آزمائش شرط ہے!
مفت مشورے کے لیے
مفت مشورے کے لیے ایڈیٹر سے نظر بچا کر عقبی دروازے سے کالم نویس کے ساتھ رابطہ کریں کیونکہ براہ راست مشورے کا کوئی بدل ہی نہیں۔ البتہ موٹی‘ کالی‘ بھدّی‘ بھینگی اور لولی لنگڑی خواتین موصوف کی بے پناہ مصروفیات کے پیش نظر ڈاک ٹکٹ بھیج کر مفت مشورہ حاصل کر سکتی ہیں جبکہ کچھ بدگمان اور جلد باز خواتین کسی غلط فہمی کی بناء پر کالم نویس کو متعدد بار اندر بھی کروا چکی ہیں جو آج کل ماشاء اللہ ضمانت پر ہے۔ نقالوں سے ہوشیار رہیں‘ پہلے آئیں پہلے پائیں‘ دوڑ وزمانہ چال قیامت کی چل گیا۔
آج کا مطلع
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
پھر اُس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایہ تھا