ڈپٹی صاحب والے(2)
یہ اقتباس دیکھیے کہ کاروبارِ شوق اور انسانی سیرت کے چند پہلو ضرور جگمگا رہے ہیں:
بیمار بیوی کی خدمت کرنا تو میرا فرض تھا مگر میں سمجھتا ہوں کہ کبھی کبھی جو میں بیزار ہو جاتا اور بڑے بڑے خیالات دل میں لاتا تھا تو شاید اللہ میاں مجھے اس لیے معاف کر دیں کہ میں نے اپنی دائم المریض بیوی کو سوکن کا دکھ نہیں پہنچایا۔ حالانکہ ایک دو نہیں بیسیوں لڑکیاں مجھ سے شادی کرنے کی خواہشمند تھیں۔ میں ان سب کو بہلاتا رہا اور ان سے محبت جتاتا رہا مگر بیوی کے انتقال کے بعد بھی میں نے ان میں سے کسی سے شادی نہیں کی‘ اور نہ اپنی بھری جوانی میں کوئی بے راہ روی اختیار کی۔ ویسے دس سال کی عمر سے میں افلاطونی عشق کا مریض ہوں اور چاہنے سے زیادہ چاہا گیا ہوں‘ حد یہ ہے کہ بیوی کے مرنے کے بعد بھی بعض شادی شدہ سابقہ محبوبائیں اس پر بھی آمادہ تھیں کہ اپنے شوہر سے طلاق لے کر مجھ سے شادی کر لیں۔ ع
اے روشنیٔ طبع تو برمن بلا شُدی
ایسے میں پیٹ بھر کے نہ بگڑنا کردار کی بلندی کا پتا دیتا ہے۔ وقت گزاری اور لاہوریوں کی ریس میں ''ساقی‘‘ کا ڈول ڈالا اور جوں اس وقت رینگی جب ماموں نے بتایا‘ پیارے بھانجے چونتیس ہزار تو خالص لگ چکا ‘آئندہ کیا ارادے ہیں۔ ذاتی دلچسپی یہیں سے شروع ہوئی اور قدم ادارت سے نکل کر کوچۂ نشرو اشاعت اور
طباعت میں جا پڑے۔ کام اپنے ہاتھ میں لینا تھا کہ دو ہی چار برسوں میں ایک ڈھب پر آ گیا۔ ضخیم و عظیم نمبر نکلنے لگے۔ پھر تو یہ حالت تھی کہ میرا جی بار بار کے تقاضوں اور بلا طلب مسوّدوں کے نذرانوں کی بنا پر دھتکارے جانے لگے۔ منٹو نے پہلی ملاقات میں دُون کی لی تو باتوں میں اڑا دیے گئے۔ کرشن چندر کشمیر کی وادیوں میں بیٹھ کر ناول لکھنے کی آرزو سینے میں لیے پھرتے تھے‘ ایک ہزار روپیہ ان کے خوابوں کی تعبیر بن کر جھولی میں گرا۔ شوکت تھانوی کو معاوضے منی آرڈر سے جاتے رہے۔ پیشگی لے کر ہضم کر گئے تو تقاضا نہ کیا۔ عظیم بیگ چغتائی کے ابتدائی تیرہ مضامین مختلف رسائل نے ناقابل اشاعت قرار دے دیئے تھے۔ نیرنگِ خیال اور ساقی میں چھپے اور چمکے ۔ چغتائی کے تقریباً سبھی ناول مکتبہ ساقی نے شائع کئے مرتے مرتے بھی بلا حساب و کتاب دو سو لے مرے۔ شاہد نے اسی پر اکتفا نہیں کیا ! بیوہ کو سب کتابوں کے حقوق لے جا کر واپس کر دیئے۔ وضعداری کی یہ کیفیت منٹو کی موت پر بھی باقی رہی۔ چُپکے سے لاہور گئے۔ نہ جانے کا علم نہ جانے کی خبر‘ اور یہ سب کچھ گویا برے حالوں میں تھا۔ کبھی کبھار لاہور والوں سے بھی ٹھن جاتی تھی۔ شلوارانِ ادب اسی زمانے کی لاہور والوں پر پھبتی ہے۔ مولانا صلاح الدین سے بھی الجھ گئے۔ اس مرد شریف نے وہ عنوان ہی ادبی دنیا سے اڑا دیا۔ بمبئی سے فلمی بُلاوے آتے رہے مگر وہ اپنی دلّی کے گلے کا ہار بنے رہے۔ چند روزہ دوری آتشِ شوق کو بھڑکاتی ہے۔ گرمیوں میں چیل انڈہ چھوڑتی تو یہ دلّی چھوڑ دیتے ۔گاہے مسوری اور کبھی دیرہ دون چلے جاتے ۔ جس محلے میں رہتے تھے بزرگوں کا بھرم اس طرح قائم رکھا کہ تقسیم ہند تک پورا خاندان ڈپٹی صاحب والے کہلاتے رہے۔ دلی میں ترقی پسند اور جدّت پسند ادیبوں کے مڈھ سمجھے جاتے تھے۔ اتنی انجمنوں کے صدر ممبر اور سیکرٹری رہے کہ یاد بھی نہ رہتا۔ ہر شخص مکتبۂ ساقی میں چھپنے کا تمنائی‘ پاکستان بنا ہے تو اس کی بنیادوں میں مکتبۂ ساقی کادو لاکھ اور ادیبوں کو پیشگی دیئے گئے پندرہ ہزار کام آئے۔
ان حالات میں شاہد صاحب کو ہر طرح کا آرام میسر تھا۔ عزت ‘ شہرت ‘ صحت جسمانی و روحانی‘ دنیا بدلتی ہے۔ بھرا پُرا گھر رسا بسا گھر دنیاوی سازو سامان کے علاوہ بہت بڑا علمی خزینہ چھوڑ کر ہجرت فرمائے پاکستان ہوئے۔ پہلا مرحلہ قلعے میں گویا نظر بندی کا تھا۔چلے تو پٹیالہ کے قُرب و جوار میں وحشیوں نے ریل گاڑی روک کر آدھی تو کاٹ کر رکھ دی۔ یہ بقولِ خود سخت جان تھے‘ بیمار بچی کو سینے لگائے دبکے بیٹھے رہے۔ نہتے اور شریف لوگ اور کرتے بھی تو کیا۔ کیسا ہیجانی اور جنون خیز دور ان پر گزر گیا۔ لاہور وارد ہوئے ‘سال چھ مہینے سے زیادہ نہ ٹِک سکے۔ یہ عجیب بلکہ غریب اتفاق ہے۔ لاہور مدت سے اردو کا گڑھ ہی نہیں سر پرست بھی رہا ہے۔ ظفر علی خان جیسا اخبار نویس اور زودگو‘ اقبال سا مفکر ‘طناز سالک ‘ غلام رسول مہر بھی یہیں پلے بڑھے ‘پھولے پھلے‘ سینکڑوں نام اور بھی گنوائے جا سکتے ہیں۔ محلوں کے محلے ادیبوں اور شاعروں سے آباد۔ حکیم احمد شجاع ''لاہور کا چیلسی‘‘ کے عنوان سے نشاندہی کر چکے ہیں مگر اردو والوں کی پناہ گاہ کیا زرعی اور کیا شعری‘ ہر اعتبار سے بنجر اور خشک سرزمین کراچی نامی فردوس برروئے زمین است کا مصداق بنی۔ ہاتھ پائوں مار کر شاہد صاحب یہاں ساڑھے چار سو روپلی پر ریڈیو میں ملازم ہو گئے جس سے دو وقت کی روٹی مشکل سے جڑتی تھی۔ ش ق کی درستی کا امتحان روزنامہ حریت کے نصراللہ خاں نے لیا اور حفیظ جالندھری نوحہ خواں تھے کہ سنتے ہو اظہر پاکستان میں شاہد نوکری کر رہا ہے۔ دو مہینے بعد بیمار پڑے تو تنخواہ کٹ گئی۔ معلوم شد کہ دنیا میں کوئی کام بیکار کبھی نہیں گیا۔ وہ ذوقِ موسیقی اور موسیقی بھی کلاسیکی‘
جس پر آوازے ابتدائے عشق ''میں گانے بجانے‘‘ کے کسے گئے ہوں گے۔ گانا سیکھے ہوئے تھے۔ ایسا ویسا نہیں‘ استادوں میں شمار ہوتا تھا۔ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے وہی کام آیا ۔ سر چھپانے کے لیے تنگ و تاریک بغیر نل ‘بجلی کے دو کمروں میں چوبیس آدمی بھر گئے۔ اللہ اللہ کہاں وہ لق و دق حویلیاں اور کجا ایک کابک نما کوارٹر‘ دفتر (جن کے کبھی ذاتی دفتر تھے) جانے کے لیے چرمراتی ہوئی سائیکل اور پھر شمس زبیری کے اشتراک سے موٹر سائیکل جس سے ایک روز شاہد صاحب تو کہیں لڑھک گئے‘ زبیری یہ جا وہ جا۔ پلٹ کر جو دیکھا تو نشست خالی‘ بدحواس و الٹے قدموں دوڑے‘ حضرت کو تلخی ٔحیات پر خندہ زن پا کر جان میں جان آئی۔ موٹر کا کھڑاک مرحوم نے کبھی کھڑا ہی نہیں کیا۔ دلّی میں ٹرام کا اجازت نامہ بنوا لیا تھا۔ اسی سے کام چلاتے رہے۔ ریڈیو پاکستان کے علاوہ مضمون نگاری کے صلے میں معاوضے بھی ملنے لگے۔ کبھی خود دیا کرتے تھے ۔ ساقی کو حیاتِ نو بخشی اور مرتے دم تک خون جگر سے سینچتے رہے۔ اشتہار ساقی میں اکا دُکا ہی دیکھنے میں آئے۔ ساقی اور شاہد‘ شاہد اور ساقی یک جان دو قالب تھے۔ عزتِ نفس کا پاس تھا ورنہ اشتہاروں کی کیا کمی تھی۔ وہ صحیح معنوں میں گرم و سردِ زمانہ چشیدہ نہیں گزیدہ تھے...
آج کا مقطع
ظفرؔ‘ جانے کی جلدی تھی کچھ اتنی
کہ پیچھے رہ گیا سامان سارا