ہمارے دوست نجم سیٹھی اپنے حالیہ کالم بعنوان ''فیصلہ کن گھڑی‘‘ کا اختتام ان جملوں پر کرتے ہیں کہ اس وقت پاکستان ایک نازک دوراہے پر کھڑا ہے۔ اگر مذہبی انتہا پسندی کی لہر کو پیچھے دھکیلنا ہے تو حکومت کو واضح اور دو ٹوک فیصلے کرنا ہوں گے ورنہ کھیل کوئی رُخ اختیار کر سکتا ہے۔ اس طرح کے ہومیوپیتھک قسم کے مشورے حکومت کو بالعموم دیئے تو جا رہے ہیں لیکن خود مشورہ دینے والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت نہ تو اس لہر کو پیچھے دھکیلنے کی استطاعت رکھتی ہے کیونکہ بات چیت آگے تک بڑھ چکی ہے‘ اور نہ ہی ایسا کرنا چاہتی ہے ورنہ وہ اس سلسلے میں اب تک بہت کچھ کر چکی ہوتی اور یہ لہر اب تک اتنی زوردار نہ ہو چکی ہوتی۔ سیدھی سی بات ہے کہ اسی لہر کی بنیاد پر حکومت الیکشن جیتتی آئی ہے اور آئندہ الیکشن بھی جیتنا چاہتی ہے‘ اس لیے اس سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ اس کو روک کر یا اس کی کوشش کر کے اپنے ہی پائوں پر کلہاڑا مار لے گی؟
حکومت کے اس مستقل ہمدردانہ رویے ہی سے اس لہر کے حوصلے اس قدر بلند ہو گئے ہیں جو اب بھی حکومتی مجبوریوں کو سمجھتی ہے۔ ہمارے کرم فرما مولا بخش چانڈیو بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ چودھری نثار علی خاں کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ وہ دہشت گردوں کے ہمدرد ہیں حالانکہ یہ بات روز اول ہی سے کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے‘ فرق اگر ہے تو صرف یہ کہ تنہا چودھری صاحب ہی نہیں‘ پوری حکومت ہی اسی ذیل میں آتی ہے اور جو اس کے اعمال و اطوار سے صاف ظاہر ہے۔
کچھ دوستوں کی طرف سے بہت محتاط اور ملفوف طریقے سے یہ اندازہ لگایا اور اس کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ شاید حکومت اور فوج ایک صفحے پر نہیں رہے۔ میں سیاسی تجزیہ نگار نہیں ‘ شاعر ہوں‘ ادبی کالم لکھتا ہوں اور ہلکے پُھلکے انداز میں سیاسی کمنٹ بھی کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ تاہم میری بات غلط ہو یا صحیح‘ سیدھی اور صاف ہوتی ہے‘ اس لیے میرا اندازہ ہے کہ فوج اور حکومت نہ صرف یہ کہ ایک صفحے پر نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے مقابل کھڑی نظر آتی ہیں‘ اور وہ اس لیے کہ حکومت کے اس مسلسل رویّے سے خود ضرب عضب آپریشن کامیابی کی بجائے ناکامی سے دوچار ہو رہا ہے اور اس بات کا ادارک حاصل کرنے کے لیے کسی سائنسی اہلیت کی ضرورت نہیں کہ حکومت اگر اس آپریشن سے فاصلے پر رہے گی تو اس کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس طرح نہ صرف ہزاروں فوجی اور سول شہداء کی قربانی رائگاں جائے گی وہاں ملکی سلامتی دائو پر لگ جائے گی اور یہ ایک افسوسناک امر ہو گا کہ آپریشن ضرب عضب پنجاب اور صرف پنجاب کی وجہ سے ناکام ہو جائے۔ حکومت کی اس سلسلے یعنی ایکشن پلان پر کارگزاری صفر کے برابر ہے اور جو پندرہ نکات حکومت کے ذمے تھے‘
ان میں سے ایک پر بھی عمل نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس ادارے کے لیے فنڈ فراہم کیا گیا۔ افسوس اس بات پر ہے کہ کوئی کھل کر بات نہیں کرتا۔ شاید اس لیے کہ زیادہ تر حضرات جنہیں ان معاملات پر کھل کر لب کشائی کرنی چاہیے ان کے اپنے تحفظات اور انہیں اپنے حلوے مانڈے کی فکر ہے کیونکہ یہاں کسی نہ کسی سطح پر سب کچھ حلوے مانڈے پر ہی چل رہا ہے۔ شریف برادران کا معاملہ بالکل سیدھا اور صاف ہے کہ وہ اپنی شہنشاہی بہرصورت باقی اور قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ ملک میں صرف ان کی حکومت ہے‘ اور کچھ بھی نہیں کہ ان کا سارا کچھ ہی ملک سے باہر ہے‘ وہ اثاثے ہوں‘ کاروبار ہوں‘ محلات ہوں‘ بینک بیلنس ہوں حتیٰ کہ ان کی اولادیں بھی باہر ہیں۔ اس لیے اگر ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو ان کے لیے یہ ملک رہنے کے قابل ہی نہیں رہے گا۔ بڑے میاں صاحب اسی لیے مسلسل خاموش ہیں۔ منہ سے بولتے ہیں نہ سر سے کھیلتے ہیں اور کسی لمبی پلاننگ میں ہیں۔ مشرف کو بیرون ملک بھیجنے سے بھی ان کی کافی سبُکی ہوئی ہے اور چودھری نثار اور پرویز رشید وغیرہ کی طرف سے مسلسل یہی کہا جا رہا ہے کہ موصوف کو عدالت کے حکم پر باہر بھیجا گیا حالانکہ یہ بات ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ عدالت نے نہ تو ایسا کوئی حکم دیا تھا نہ اجازت‘ بلکہ اپنے فیصلے میں صاف لکھا تھا کہ اس سلسلے میں حکومت خود فیصلہ کرے۔ لیکن اب سارا ملبہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اور بار بار عدالت پر ڈالا جا رہا ہے‘ کیا یہ توہین عدالت نہیں ہے اور کیا وکلاء میں سے کوئی صاحب اس پر روشنی ڈالیں گے؟
تاہم‘ حالات کچھ بھی ہوں‘ نوازشریف بھی ہار ماننے والوں میں نہیں ہیں لیکن ان کی مجبوریاں بھی ہیں۔ کوئی انتہائی اقدام وہ اٹھا بھی نہیں سکتے کیونکہ وہ حسب سابق ان کے اپنے ہی گلے پڑ جائے گا کیونکہ میاں صاحب کی پریشانیوں میں ایک اور اضافہ بھی ہونے والا ہے اور وہ ہے وہ ہاتھ جو ان کے نہ صرف متعدد قریبی ساتھیوں پر پڑنے والا ہے بلکہ ان کے کئی اپنے کیسز بھی کھلنے کو ہیں جبکہ نیب بھی ان کے قابو میں نہیں رہی اور صحیح معنوں میں اپنے آئینی اختیارات کے حوالے سے بااختیار اور آزاد ہو چکی ہے جبکہ آپریشن پنجاب سے حکومت اس لیے بھی خوفزدہ تھی کیونکہ اس سے سارا کیا دھرا اور کچا چٹھا سامنے آ جائے گا۔ لیکن یہ بھی کہیں لکھا ہوا نہیں ہے کہ نوازشریف اور بم کو لات نہ مارے‘ ہیں جی؟
صاحب موصوف ایک بات سراسر بھول رہے ہیں کہ عوام اگر واقعی ان کے ساتھ ہیں بھئی تو انہیں یہ بھی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ محض حکومتی پالیسی کی وجہ سے ان کی زندگیاں تک محفوظ نہیں ہیں۔ چنانچہ جان اس وقت سخت شکنجے میں ہے یعنی کردن یک عیب و نہ کردن صد عیب‘ یعنی نہ جائے ماندن ہے نہ پائے رفتن‘ حکومت بھی خطرے میں نظر آ رہی ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ اگر ہاتھ سخت پڑ گیا تو جملہ گزشتہ کارناموں اور بقول حسین نواز ''محنت‘‘ سے کمائی ہوئی دولت کا حساب بھی دینا پڑے گا کیونکہ اب کے امکانات صرف دو ہیں یا ملک رہے گا یا نوازشریف‘ اینف از اینف! خدا کی بے آواز لاٹھی پوری آواز کے ساتھ بھی کھڑک سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ رسی دراز کرتا ہے لیکن اتنی بھی نہیں‘ کیونکہ اسے اپنا نظام بھی چلانا ہوتا ہے‘ کچھ اس نے رکھ رکھا ہوتا ہے۔
چنانچہ اب انتظار اس کا اور دیکھنا یہ ہے کہ آنکھ پہلے کون جھپکتا ہے۔ مالک پہلے پُھونک مارتا ہے یا گھوڑا؟ بس‘ کوئی دن ہی جا رہا ہے!!
آج کا مطلع
شاعر جو بھی یہاں پر جھوٹے سچے ہیں
سارے کے سارے ہی مجھ سے اچھے ہیں