اشعار اور ضرب الامثال تحریر کو سجانے کے کام بھی آتے ہیں اور یار لوگ یہ کام کرتے بھی بڑے ذوق و شوق سے ہیں لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ مصرعہ اگر استعمال کیا گیا ہے تو باقاعدہ اس کی ٹانگ توڑ کر کسی لفظ کی کمی بیشی ہوتی ہے یا آگے پیچھے کا خیال نہیں رکھا جاتا‘ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ ہر لکھاری فن شعر خصوصاً اس کے عروض یعنی وزن پر دسترس رکھتا ہو اور اسے اپنی تحریر میں کوئی شعر یا مصرعہ استعمال کرنے سے روکا بھی نہیں جا سکتا لیکن اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو کم از کم اس کے عروضی معاملات پر تشفی حاصل کرنے کے لیے کسی کو فون ہی کر لیا کریں کہ شہر میں ایسے اساتذہ کی ہرگز کمی نہیں ہے جو آپ کی مشکل آسان کر سکتے ہیں۔ خود میں بھی اگر کہیں شک و شبہ یا بے یقینی کا شکار ہو جائوں تو ڈاکٹر خورشید رضوی یا ڈاکٹر تحسین فراقی سے رہنمائی حاصل کرنے میں کوئی ہیٹی نہیں سمجھتا۔
چنانچہ یار لوگ جہاں اپنی تحریر میں اشعار یا مصرعوں کے ساتھ اس طرح کی بے تکلفیاں روا رکھتے ہیں اور میں حسب توفیق اس کا نوٹس بھی لیتا رہتا ہوں اور اس سلسلے میں بدنام اور بدلحاظ بھی مشہور ہوں لیکن سوال صرف یہ ہے کہ اگر شعر جیسی نفیس و نازک چیز کے
ساتھ بدسلوکی کریں گے تو اس کی نشاندہی کیوں ضروری نہیں ہے اور اس پر اعتراض یا ناراضی بلاجواز کیوں ہے‘ کیونکہ غلط شعر یا مصرعہ اسی حالت میں آگے جائے گا جس انداز میں اسے نقل کیا گیا ہو جبکہ اس کے ساتھ یہ سلوک ایک صدمۂ جاریہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ میں یہ دلیری اس لیے بھی کر جاتا ہوں کہ اگر اس کے علاوہ بھی کئی دیگر معاملات کے حوالے سے میرے ساتھ دوستوں کے تنازعات چلتے رہتے ہیں اور مجھے اس سلسلے میں باقاعدہ ناپسند بھی کیا جاتا ہے تو ع
ایک بیدادگرِ رنج فزا اور سہی
اور‘ میں چونکہ یہ کام نیک نیتی سے کرتا ہوں حالانکہ بصورت دیگر مجھے نیک نیتی کا دعویٰ نہ بھی ہو‘ تاہم وہاں بھی مقصود شرارت ہوتی ہے‘ بدنیتی نہیں۔ اور‘ میں ان باتوں کی نشاندہی کرنا اس لیے بھی اپنا حق سمجھتا ہوں کہ شعر کہتے کہتے ہی بوڑھا ہو گیا ہوں اور شعر کی اس طرح گت بنتے دیکھ بھی نہیں سکتا۔ تاہم کچھ دوست ایسے بھی ہیں کہ میری کسی ایسی حرکت پر ناراض یا معترض ہونے کی بجائے شکر گزار ہوتے ہیں۔ امتیاز عالم صاحب سینئر کالم نگاروں میں شامل ہیں جن کے کالم میں ایک ایسی کاٹ ہوتی ہے جو بہت کم دستیاب ہوتی ہے اور میں ان کا کالم کبھی مس نہیں کرتا۔ کچھ اس وجہ سے بھی کہ میں ان کے ایک سہو کی نشاندہی کر رہا ہوں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم کا عنوان ایک مصرعہ بنایا ہے جسے اس طرح سے نقل کیا ہے جو کہ درست نہیں:
جو بڑھ کے اٹھا لے ہاتھ میں مینا اُسی کا ہے
یہ غالباً شیفتہ کا مصرعہ ہے اور اصل شعر اس طرح سے ہے ؎
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خُود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اُسی کا ہے
اب جیسا کہ برادر محترم نے نقل کیا ہے اس سے مطلب تو حاصل اور حل ہو ہی جاتا ہے لیکن اگر مصرعہ کا حُلیہ اس طرح تبدیل کر دیا جائے کہ وہ بے وزن ہو کر ہی رہ جائے تو اس میں اور نثر کے ایک جملے میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ اس معاملے پر غور کرنے یا اس پر فکرمند ہونے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی حالانکہ ہونی چاہیے کہ شعر یا مصرعے کے ساتھ اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اسے دائرۂ شعر ہی سے نکال دیا جائے اور پھر اگر آپ ایسے مصرعہ کو اپنے کالم کا سرنامہ بناتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس کو اور اس کے سقم کو اور بھی نمایاں کر دیتے ہیں۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین بیچ اس مسئلے کے؟
خبر یہ ہے کہ مبین مرزا کی ادارت میں کراچی سے شائع ہونے والے ادبی جریدے ''مکالمہ‘‘ جس کے دو ضخیم شمارے حال ہی میں شائع ہوئے ہیں اور ہمیشہ کی طرح کم و بیش دو سال کے بعد زیور طبع سے آراستہ ہوئے ہیں‘ بلکہ خوشخبری یہ ہے کہ اب یہ پرچہ باقاعدہ ہر ماہ شائع ہوا کرے گا جبکہ اس کا سائز بھی خاصا شریفانہ کر دیا جائے گا اور اگر واقعی ایسا ہو جاتا ہے تو ادبی حلقوں کے لیے یہ ایک سوغات سے کم نہ ہو گا کیونکہ ادبی ماہناموں کی تعداد تو پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اور‘ سٹاپ پریس کے طور پر یہ ہے کہ اسی اکادمی کے سابق چیئرمین اور ہمارے شاعر دوست افتخار عارف اپنا بیرون ملکی معاہدہ تمام ہونے پر واپس وطن تشریف لا رہے ہیں اور اُمید ہے کہ ان کے دوست حضرات عطاء الحق قاسمی اور عرفان صدیقی ان کی خدمات کا کسی نہ کسی طور فائدہ اٹھانے کا کوئی انتظام کر رہے ہوں‘ خوش آمدید افتخار عارف!
آج کا مطلع
اُ س کے گلاب‘ اس کے چاندجس کی بھی قسمت میں ہیں
آپ ظفر کس لیے اتنی مصیبت میں ہیں