ایک اچھی خبر تو یہ ہے کہ تعیناتی کے منتظر پاکستان آڈٹ اینڈ اکائونٹس سروسز کے گریڈ21کے افسر اور ہمارے شاعر دوست سید کرامت حسین بخاری(کرامت بخاری) کو ڈپٹی آڈیٹر جنرل آئی او ٹی اینڈ ایم ٹی اے جی پی آفس اسلام آباد تعینات کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ اعلامیہ کے مطابق کرامت حسین بخاری کو فوری طور پر چارج سنبھالنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ انہی کالموں میں ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ موصوف کو کس قدر طویل عرصے تک بغیر کوئی وجہ بتائے تعیناتی اور اپ گریڈیشن سے محروم رکھا گیا حتیٰ کہ ان کے جونیئر ان کے افسر تعینات ہوتے گئے۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ اپ رائٹ تھے اور جی حضوری نہیں کرتے تھے۔ ان کا ایک شعر سنیے ؎
زمیں پر آسماں رکھا گیا ہے
مجھے بھی درمیاں رکھا گیا ہے
دوسری خبر ‘ جس میں اچھے اور بُرے دونوں ذائقے ہیں‘ یہ رہی کہ محبّی ڈاکٹر تحسین فاروقی کے بقول انہیں ایک بھارتی ادبی رسالے میں شائع ہونے والے تبصرے سے معلوم ہوا ہے کہ بنگلور سے جناب خلیل مامون کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدے نے ''نیا ادب ‘‘میں خاکسار کا گوشہ شائع کیا گیا ہے جس
میں ایک میرا انٹرویو‘ ایک میری شاعری پر مضمون اور میری 3غزلیں شائع کی گئی ہیں اور یہ اس کے پچھلے شمارے کی بات ہے۔ تاہم صاحبِ گوشہ ہونے کے باوجود مجھے وہ رسالہ نہیں بھیجا گیا اور ایسا لگتا ہے کہ خلیل مامون‘ جو شاعر بھی ہیں‘ نے مجھے ماموں بنایا ہے۔ البتہ اگر اب وہ تلافیٔ مافات پر آمادہ ہوں تو میرا پوسٹل ایڈریس یہ ہے: 68بی۔ جی او آر تھری‘ شادمان‘ لاہور
فراقی صاحب نے اس دن تو ہاتھ کھڑے کر دیے تھے لیکن اب بتایا ہے کہ محترم امتیاز عالم کے کالم کے سفرنامے کے طور پر نقل ہونے والے مصرعے کے شاعر عندلیب شادانی ہیں اور پورا شعر یوں ہے ؎
یہ بزمِ مے ہے ‘یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اُسی کا ہے
جبکہ محبّی سید انیس شاہ جیلانی کے مطابق یہ شعر ریاض خیر آبادی کا ہے؛ البتہ اس شعر کے بارے میں جسے محبّی مسعود اشعر نے غالب کا قرار دیا تھا یعنی ؎
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ کس کا ہے۔ اس ضمن میں جناب ناصر زیدی سے بھی رابطہ ہو گیا تھا جن کے خیال میں بھی یہ غالب ہی کا شعر ہے۔ میں نے کہا‘غالب کے دیوان میں تو موجود نہیں ہے جس پر انہوں نے کہا کہ غالب کے کئی اور بھی ایسے شعر ہیں جو اس کے دیوان میں نہیں ہیں۔ لیکن میں نے کہا کہ یہ اتنا مشہور اور ضرب المثل شعر ہے‘ کسی نے تو آج تک اسے غالب سے منسوب کیا ہوتا۔ جس پر وہ بولے کہ میں اپنی کتابیں کھنگال کر بتا دوں گا۔
اچھے شعر کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ یہ بس سرزد ہو جاتا ہے اور شاعر کو اس کے لیے کوئی خاص تردّد بھی نہیں کرنا پڑتا۔ اور ‘ یہ محض اللہ کی دین ہے‘ اور یہ صفت کسی کے ساتھ مخصوص نہیں کی جا سکتی کیونکہ اچھا شعر کہنے والا شاعر بھی بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ پٹڑی سے اُتر گیا ہے‘ حالانکہ اچھے شاعر کا کمزور شعر بھی اس کی کلاس کو ضرور ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ اور‘ ہر شعر ایک جیسا ہوتا بھی نہیں‘ نہ ہی اسے پسند کرنے والے ایک جیسے ہوتے ہیں‘حتیٰ کہ ایک معمولی شعر بھی بعض اوقات غیر معمولی لگنے لگتا ہے حالانکہ اس میں کوئی نہ کوئی غیر معمولی پن ہوتا ضرور ہے اور وہ آپ سے داد بھی وصول کر کے رہتا ہے جبکہ اکثر قاری شعر کو ایک چیلنج سمجھ کر پڑھتے ہیں اور تہیہ کیے ہوئے ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنی جگہ سے ہلنا ہرگز نہیں۔ لیکن شعر آپ کو ہلا کر ہی رہتا ہے۔
ایسا ہی ایک شعر جام پور ضلع راجن پور سے موصول ہوا ہے‘ شاعر ہیں شعیب زمان ۔شعر دیکھیے:
جسے چٹکی بجانا کہہ رہے ہو
ہماری اُنگلیوں کی گفتگو ہے
مجھے تو اس نے کافی دیر سے جکڑ رکھا ہے‘ کہیے‘ آپ کو کیسا لگا؟
تاجروں کے درمیان شام
کچھ دن ہوئے لبرٹی مارکیٹ کے کچھ تاجر حضرات نے میرے ساتھ شام منانے کا کہا ہوا تھا۔ اہتمام جناب صفدر بٹ کا تھا‘ اگرچہ اسے خالص تاجر برادری کا ایونٹ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں صہیب مرغوب‘ انور پاشا اور حسین مجروح جیسے غیر تاجر لوگ بھی پیش پیش تھے۔ مجھے پھنسانے والوں میں اصل کردار میرے بیٹے جنید اقبال کا تھا جس کا ان حضرات کے ساتھ نیا نیا تعلق استوار ہوا تھا۔ بھاگ دوڑ میں مرکزی کردار ہمارے دوست شاہد قادر کا تھا۔ کمپیئرنگ نجی ٹی وی کے نوجوان ریحان سرانجام دے رہے تھے جبکہ اینکر نجم ولی خان بھی شریک تھے۔ اگرچہ یہ عُمر شامیں منوانے کی ہرگز نہیں تھی‘ پھر یہ سوچا کہ اگر رعایا ہم تاجروں کے ہیں تو یہاں سرتابی کی کیا مجال تھی۔ حسین مجروح اور انور پاشا سمیت یار لوگ تعریفوں کے پُل باندھ رہے تھے اور میں شرمندگی سے پانی پانی تھا جو اِن پلوں کے نیچے بہہ رہا تھا۔ اللہ معاف کر ے‘جس کی کوئی خاص اُمید نہیں!
آج کا مطلع
یہ شہر چھوڑ دے کہ شرافت اسی میں ہے
رسوائے شہر اب تری عزت اسی میں ہے