"ZIC" (space) message & send to 7575

کاک ٹیل کالم

پنجابی زبان کے عاشقِ زار اور ورلڈ پنجابی کانگریس کے چیئرمین فخر زمان نے ایک بار پھر اس چیزکا رونا رویا ہے کہ حکومت پنجابی زبان کو کم از کم پرائمری تک بھی ذریعہ تعلیم قرار دینے سے قاصر چلی آ رہی ہے جبکہ یہ بات بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ ہے کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان ہی میں دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور بیوروکریسی کے علاوہ پنجابی زبان کے دشمن خود ہم بھی ہیں؛ حالانکہ مصدقہ اعدادوشمار کے مطابق پنجابی دنیا کی سب سے بڑی زبانوں میں دسویں نمبر پر ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں شاہ حسین کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے‘ جس کا اہتمام پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج‘ آرٹ اینڈ کلچر (بلاک) نے کیا تھا۔ فخرزمان کی تازہ تصنیف بعنوان ''پنجاب‘ پنجابی اور پنجابیت‘‘ بھی منظرعام پر آگئی ہے‘ جس کا تعارف بہت جلد کرایا جائے گا۔
خوشخبری ہو کہ سٹرس کے پھل ''بنٹے‘‘ کے برابر ہوگئے ہیں جو دس روز پہلے چنے کے دانے کے برابر تھے۔ بچہ اگر نظروں کے سامنے رہے تو اس کی بڑھوتری کا احساس نہیں ہوتا؛ چنانچہ پانچ چھ ماہ بعد دیکھیں تو ہی پتا چلتا ہے کہ اس کا قد بڑھ رہا ہے اور جسم میں بھی بڑھوتری آ رہی ہے۔ دوسرا ''انکشاف‘‘ یہ ہے کہ سبز پتوں کے پس منظر میں انار کے پھول جو نظارا پیش کرتے ہیں اس کا ایک اپنا ہی لطف ہے۔ لفظ ''گلنار‘‘ گُلِ انار ہی سے نکلا ہے اور ایک رنگ کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ اسی سلسلے کی تیسری خبر یہ ہے کہ اب ارادہ کرلیا ہے کہ کل سے جوتے اتار کر گھاس پر واک کیا کروں گا کہ واک کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ صبح سویرے شبنم پر چلا جائے۔
انار کے پودے سے یاد آیا کہ میں نے کسی زمانے میں ایک ہائیکو کا ترجمہ کیا تھا جو کچھ اس طرح سے تھا:
میں نے مانا کہ مجھ سے نفرت ہے
تجھے اے رنگ روپ کی رانی
پر وہ اک سنگترے کا پودا جو
بھر کے پھولا ہے میرے گھر کے پاس
کیا اسے دیکھنے نہ آئو گی؟
آم کے پودے بہت کم ہیں۔ ان پر ابھی پھل تو نہیں لگنے لگا لیکن بُور آ چکا ہے۔ پھل بھی‘ یوں سمجھیے کہ کچھ دنوں ہی کی بات ہے اور سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ مونکی بار پر بیٹھی ایک فاختہ بھی نظر آئی جس کا مطلب ہے کہ یہ پرندہ ابھی بالکل بھی عنقا نہیں ہوا۔
فیصل آباد سے ہمارے دوست اور منفرد لہجے کے شاعر انجم سلیمی کے تازہ مجموعہ کلام ''میں‘‘ کا ماہنامہ ''ادب دوست‘‘ میں ارشد نعیم نے جائزہ لیا ہے۔ کچھ اشعار دیکھیے:
اچھا بھلا پڑا تھا میں اپنے وجود میں
دنیا کے راستے پہ مجھے رکھ دیا گیا
نواح جاں میں اُداسی کی شام اتر رہی تھی
میں آفتاب کے ہمراہ خود بھی ڈھل رہا تھا
میں پلٹ آیا تھا دیوار پہ دستک دے کر
اب سنا ہے وہاں دروازہ نکل آیا ہے
بے جان پڑا دیکھتا رہتا تھا میں اُس کو
اک روز مجھے اُس نے اشارے سے اُٹھایا
اک لہر مجھے کھینچ کے لے آئی بھنور میں
وہ لہر جسے میں نے کنارے سے اُٹھایا
عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں
رات بستر پہ میں سوتا نہیں‘ مر جاتا ہوں
ایک تعبیر کی صورت نظر آئی ہے اِدھر
سو‘ اٹھا لایا ہوں سب خواب پرانے والے
اب بھی تھوڑی سی مرے دل میں بڑی ہے شاید
زرد سی دھوپ جو دیوار سے رخصت کی ہے
اور اب اسی شمارے میں چھپی اظہر فروغؔ کی غزل کے دو شعر:
تیری شرطوں پہ ہی کرنا ہے اگر تجھ کو قبول
یہ سہولت تو مجھے سارا جہاں دیتا ہے
جم کے چلتا ہوں زمیں پر جو میں آسانی سے
یہ ہنر مجھ کو مرا بارِگراں دیتا ہے
لندن میں ہمارے وزیراعظم کے پے در پے ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ ان کی جلد از جلد صحت یابی کے لیے دعا ہے۔ لندن میں ان کا قیام اس ہوٹل میں تھا جس کے پڑوس میں زرداری صاحب کا ہوٹل ہے۔ انہیں زرداری صاحب کے فون کی اطلاع تو آئی ہے جس میں انہوں نے وزیراعظم کی خیریت دریافت کی ہے لیکن ملاقات کی خبریں متضاد ہیں۔ ایک دیہاتی کنوئیں میںگر پڑا تو اس نے دیکھا کہ کنوئیں میں ایک آدمی پہلے سے موجود ہے‘ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ گائوں میں پرچون کی دکان کرتا ہے۔
''دو پیسے کا گڑ تو دے دو‘‘ اس شخص نے دکاندار سے کہا۔
''میں تو خود کنوئیں میں گرا پڑا ہوں‘ میرے پاس گڑ کہاں سے آگیا‘‘ دکاندار بولا۔
''یہ کیسے ہو سکتا ہے‘‘ شخص مذکور بولا ''کہ تم دکاندار بھی ہو اور تمہارے پاس گڑ بھی نہ ہو‘‘
سو‘ یہ ہو نہیں سکتا کہ دونوں حضرات شکنجے میں بھی ہوں اور کسی حد تک ایک دوسرے کے محتاج بھی‘ اور اس قدر قریب ہونے کے باوجود ان میں ملاقات ہی نہ ہوئی ہو۔
ویسے‘ اگر ڈاکٹر صاحبان موصوف کو مشورہ دیتے بھی کہ ان کی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ وہ حکومت کا بوجھ سر سے اتار پھینکیں تو بھی شیر کا بچہ مرتے مر جائے گا‘ حکومت نہیں چھوڑے گا۔ کیوں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی بہرحال گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے!
اور اب آخر میں آپ ارتضیٰ نشاط کے اس شعر کا لطف اُٹھائیں ؎ 
کُرسی ہے‘ تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اُتر کیوں نہیں جاتے
آج کا مطلع
چلو اتنی تو آسانی رہے گی
ملیں گے اور پریشانی رہے گی

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں